حکمرانوں کے اخراجات اور طرزِ حکومت، اِن دنوں ہمارے لکھاریوں نے اِن دونوں موضوعات پر قیامت ڈھا رکھی ہے، دل چاہا اِس معاملے میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
حکمرانوں کے اخراجات اور طرزِ حکومت، خاکسار نے اپنے صحافتی توشہ خانے کو کھنگالا، بہت کچھ ماضی میں موجود ہے، بہرحال چند ایک واقعات پر ہی اکتفا کرکے آگے چلیں گے۔
یہ اگست یا ستمبر 1992کی بات ہے۔ صوبہ پنجاب میں زبردست سیلاب آیا۔ ہزاروں لوگ بےگھر ہو گئے، اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے جہلم کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کا پروگرام بنایا، چند سرکاری افسر، پانچ اخبارات کے نمائندے، ٹی وی کیمرہ مین اور دو خدمت گزاروں پر مشتمل تقریباً دس بارہ افراد پر مشتمل یہ قافلہ صبح 8بجے بذریعہ ہیلی کاپٹر ابھی عمودی پرواز ہی کر رہا تھا یعنی فضا میں بلند ہو رہا تھا کہ سب لوگوں کو تازہ انار کا جوس پیش کیا گیا،
ابھی لوگ منہ صاف کر رہے تھے کہ چکن سینڈوچ آ گئے، اُن پر ہاتھ صاف ہو رہے تھے کہ پوچھا گیا کہ چائے یا کافی، اپنے پسندیدہ مشروب کے ساتھ روسٹ چکن کا آپشن بھی موجود تھا۔ یہ سب واقعات ’’آدھے گھنٹے‘‘ کی فلائٹ کے دوران ہی پیش آئے۔
ہیلی کاپٹر سیلاب زدہ علاقے میں ایک خشک جگہ پر اترا جہاں ہزاروں لاکھوں روپے کے خرچ سے باقاعدہ عارضی شہر آباد کیا گیا تھا، حبس کے موسم میں سینکڑوں متاثرین کو دور دراز سے لایا گیا۔ ٹی وی کوریج کے بعد ہیلی کاپٹر جہلم سے اُڑ کر منگلا کے چھوٹے ہوائی اڈے پر اُترا جہاں مقامی انتظامیہ نے تقریباً ایک سو افراد کے لئے لنچ کا بندوبست کیا ہوا تھا۔
محترم وزیراعلیٰ، اُن کے ساتھیوں اور ہم صحافیوں نے حسبِ توفیق اِن ڈشوں کے ساتھ جو کچھ ہو سکا کیا۔ وہاں سے وائیں صاحب اپنے خصوصی طیارے میں اسلام آباد چلے گئے، اب میزبان کا کردار سینئر وزیر ذوالفقار کھوسہ ادا کر رہے تھے۔ واپسی پر آدھے گھنٹے کی پرواز میں پھر وہی سب کچھ پیش کیا گیا جو جاتے ہوئے کیا گیا تھا، آپ یقین کریں گے کہ لاہور ایئر پورٹ سے یہ قافلہ سیدھا گلبرگ کے ایک ہوٹل میں وارد ہوا جہاں سرکاری خرچ پر سردار ذوالفقار کھوسہ نے حقِ میزبانی ادا کیا۔
یہ روداد اُس وزیراعلیٰ کے دور کی ہے جسے ’’درویش‘‘ کہا جاتا تھا، اِس سے پہلے اور بعد کے ’’غیر درویشوں‘‘ کے کارناموں اور رویئے کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں‘‘۔ یاد رہے یہ پاکستانی رپورٹر جواں سال ندیم چوہدری تھے، اِن دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں۔
اب انہی نے اپنے حوالے سے ایک دوسرا واقعہ لکھا ہے۔ کہتے ہیں: ’’یہ 18؍فروری 1997کا دن ہے، دنیا بھر کے 20ملکوں سے ایک ایک صحافی پر مشتمل وفد امریکہ کے دورے پر ہے۔ پاکستان سے نمائندگی کے لئے ہمارا انتخاب ہوا ہے۔
لہٰذا بین الاقوامی صحافیوں کے وفد کے ساتھ ہمیں میپسی کے گورنر کی طرف سے دوپہر کے کھانے کی دعوت دی تو پاکستانی تجربے کی بنیاد پر ذہن میں درجنوں ڈشیں، انواع و اقسام کے کھانے اور لمبےچوڑے میز کرسیاں گھومنے لگ پڑیں، انہیں تصورات میں گم ہم امریکہ کی امیر ترین ریاست کے گورنر کے پیچھے چل رہے تھے کہ گورنر ایک جگہ پر اچانک رک گئے تو ہمارے اخبار کی کینٹین جتنی بڑی ایک عمارت تھی۔
وہاں کھانا لینے کے لئے لائن لگی ہوئی تھی جس میں گورنر ساتویں نمبر پر لگے ہوئے تھے، ہمارا نمبر نواں تھا۔ کچھ دیر تو ہمیں ہوش ہی نہ رہا کہ یہ ہمارے ساتھ مذاق ہو رہا ہے یا کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔
آنکھ بچا کر گورنر کی ٹرے پر توجہ دی تو ایک چھوٹا سا برگر، سلاد کی پلیٹ اور کوکا کولا کا گلاس ہی دکھائی دیا۔ ہم نے بھی گورنر کی طرح کا ہی آرڈر دے کر اپنی ٹرے اٹھا لی اور خالی میز پر جا بیٹھے۔ بڑی مشکل سے کھانا ’’زہر مار‘‘ کیا۔
گورنر کی سیکرٹری سے ہم نے شکایت آمیز لہجے میں اس ’’پُر تکلف لنچ‘‘ کی تفصیلات جاننا چاہیں تو ہمیں بتایا گیا کہ لنچ کے لئے کُل ’’پچاس ڈالر‘‘ کی منظوری حاصل کی گئی تھی، اِس سے زیادہ خرچ کرنے پر گورنر کو جوابدہ ہونا پڑتا، جو گورنر کی روٹین تھی اس میں صحافیوں کو شامل کر لیا گیا‘‘۔ یہ دونوں واقعات 27برس قبل کے ہیں۔
ان کا پیغام کیا ہے دو جملوں میں صرف اتنا ہے، ایک ملک، سسٹم سے باہر ، ایک ملک، سسٹم کے اندر۔ اب ہمیں دیکھنا ہے اِن 27برسوں میں ہم نے کس قدر ’’سسٹم‘‘ کو عزت دی ۔
ہمارے ایک برادر کالم نگار صاحب کا بتانا ہے کہ’’زرداری صاحب نے اپنے دورِ صدارت میں 34غیر ملکی دورے کئے، نواز شریف صاحب نے 100، شاہد خاقان عباسی نے 19مزید یہ کہ ’’زرداری صاحب نے 2کروڑ 9لاکھ ٹپ دی، 4کروڑ 32لاکھ کے تحفے بانٹے، نواز شریف نے 6کروڑ 12لاکھ 40ہزار کے تحفے بانٹ کر 2کروڑ 78لاکھ 40ہزار کی ٹپ دے دی جبکہ وزیراعظم عباسی نے ساڑھے 78لاکھ کے تحائف دے کر 50لاکھ 48ہزار کی ٹپ دیدی۔
ان کا سلسلۂ کلام ابھی جاری ہے، بتاتے ہیں ’’ممنون حسین بیرونی دورے پر 60لاکھ کی ٹپ دے گئے، ممنون بھائی جان نے تو ایوانِ صدر کی تزئین و آرائش پر 1ارب 19کروڑ لگا دیئے۔
جاتے جاتے عارف علوی صاحب کی بھی سن لیں، تبدیلی سرکار نے 28لاکھ کی بھینسیں بیچیں، علوی صاحب نے 36لاکھ کا ایوانِ صدر میں مشاعرہ کروایا، صدر علوی نے گزرے 10مہینوں میں 27کروڑ اضافی خرچ کر ڈالے۔
مندرجہ بالا واقعات میں بھی ایک چیز آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے، ’’حکمرانوں نے جو اخراجات کئے کیا ان کی ’’ایک فیصد‘‘ بھی ضرورت تھی؟‘‘۔ پھر تاریخ کیا ہے؟
تاریخ پاکستان میں بھیانک ترین انسانی زیادتیوں کا نام ہے، آپ فکر نہ کریں، عمران حکومت نے اقتصادی طور پر تو ملک کو خوف کے تیندوے میں جکڑ کر ایسے سفر پر روانہ کر دیا ہے جس کے بین ہماری اگلی نسل بھی سنے گی، اخراجات کی کہانی شاید بیان کردہ کہانیوں سے کہیں زیادہ المناک ہو؟ گفتگو ابھی ادھوری ہے۔