لاہور (صابر شاہ) کمانڈر کلبھوشن یادیو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا پہلا ایجنٹ نہیں جو پاکستان سے گرفتار ہوا تاہم اس سطح کاجاسوس اس سے قبل کبھی زیر حراست نہیں آیا۔ جنگ گروپ اور جیو ٹی وی نیٹ ورک کی ریسرچ کے مطابق حالیہ ’’را‘‘ کے افسر کی گرفتاری سے پہلے متعدد بھارتی جاسوس پاکستانی سرزمین سے پکڑے گئے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں راوندر کوشک تھا جسے 1975ء میں پاکستان بھیجا گیا جبکہ اس کی عمر 23برس تھی۔ پاکستان آنے سے قبل اس نے پنجابی، اردو زبان سیکھی۔ مذہبی تعلیم حاصل کی اور پاکستان سے متعلق مطلوبہ معلومات ازبر کیں۔ نبی احمد شاکر کا نام اختیار کیا اور پاکستان آ کر اسے ملٹری اکائونٹس میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ یہاں اس نے ایک آرمی یونٹ میں کام کرنےوالے ٹیلر ماسٹر کی بیٹی سے شادی بھی کی اور اس کا ایک بیٹا بھی ہوا۔ اس نے 1979ء سے 1983ء تک ’’را‘‘ کو اہم معلومات پہنچائیں۔ 1983ء میں بھارتی خفیہ ایجنسی نے کوشک سے رابطہ رکھنے کے لیے ایک اور چھوٹے درجے کا جاسوس عنایت مسیح کو پاکستان بھیجا۔ عنایت مسیح پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا اور اس نے کوشک کے بارے میں ساری معلومات اگل دیں۔ اس کے بعد کوشک بھی گرفتار کر لیا گیا اور سیالکوٹ میں دو سال تک اس سے پوچھ تاچھ کا عمل جاری رہا۔ 1985ء میں اسے سزائے موت سنا دی گئی تاہم بعد سپریم کورٹ نے اس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ اسے 16سال تک مختلف جیلوں میں رکھا گیا اور 1999ء میں وہ ٹی بی اور دل کی تکلیف کے باعث ملتان جیل میں چل بسا۔ اس کے بعد ایک اور بھارتی جاسوس جسے پاکستان میں خاصی شہرت بھی ملی وہ سربجیت سنگھ تھا جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے دہشت گردی اور جاسوسی کے الزامات ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔ اس نے 90ء کی دہائی میں لاہور اور فیصل آباد میں متعددبم دھماکے تھے۔ گرفتاری کے بعد سربجیت سنگھ نے موقف اختیار کیا کہ وہ سرحدی گائوں کا ایک کسان ہے جو راستہ بھول کر پاکستان کی حدودمیں داخل ہو گیا۔ اسے 1999ء میں پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا اور سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی۔ تاہم اس کی سزائے موت پر عملدرآمد ملتوی ہوتا رہا۔ 26اپریل 2013ء میں اسے ایک ساتھی قیدی نے جیل میں ہی اینٹوں و دیگر اشیاء کے ساتھ حملہ کرکے شدید زخمی کر دیا اور وہ چھ دن بعد لاہور کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ بھارتی پنجاب نے اس کی موت کے بعد تین دن کے سوگ کا اعلان کیا اور اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔ ’’را‘‘ اس سے قبل سربجیت سنگھ سے لاتعلقی کا اظہار کر چکی تھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس واقعہ کے بعد جموں جیل میں قید پاکستانی قیدی ثناء اللہ کو تشددکرکے شدید زخمی کر دیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان سے پکڑے جانے والے بعض بھارتی جاسوسوں کو جذبہ خیر سگالی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا بھی کر دیا گیا۔ اس ضمن میں کشمیر سنگھ کا نام سامنے آتا ہے جسے 35سالہ قید کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں رہا کر دیا گیا۔ کشمیر سنگھ کو 1973ء میں گرفتار کیا گیا۔ پاک فوج کی ملٹری کورٹ نے اسے سزائے موت سنائی۔ اسے مختلف جیلوں میں رکھا گیا اور 17سال تک قید تنہائی میں بھی رہا۔ 4مارچ 2008ء میں اسے رہا کر دیا گیا اور وہ واہگہ کے ذریعے بھارت چلا گیا۔ جولائی 2012ء میں بھارتی جاسوس 73سالہ سرجیت سنگھ 30سال پاکستانی جیلوں میں رہنے کے بعد رہا کیا گیا۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ جب دسمبر 1981ء میں سرجیت سنگھ جب پاکستان آنے کے لیے گھر سے نکلا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ جلد واپس آ جائے گا۔ اس کے 30سال بعد دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا جبکہ سرجیت سنگھ کی داڑھی کے بال بھی سفید ہو گئے تھے۔ اس کے اہل خانہ اس کی لمبی غیر حاضری کی وجہ سے اسے مردہ سمجھ کر بھول گئے تھے۔ رہائی کے بعد بھارت پہنچ کر سرجیت سنگھ نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ وہ پاکستان جاسوسی کیلئے گیا تھا۔ بھارت نے ہمیشہ اپنے جاسوسوں کی گرفتاری کے بعد کبھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس نے پاکستان کسی کو جاسوسی کیلئے بھیجا ہے۔ سرجیت سنگھ کیساتھ بھی جب ایسا ہوا تو وہ بھارتی سرکار کے اظہار لا تعلقی سے خاصا دل برداشتہ ہوا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں اس کے الفاظ بھی نقل کئے جس کے مطابق سرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بھارتی سرکار کے کہنے پر پاکستان گیا تھا۔ اس کی غیر حاضری کے باوجود بھارتی فوج اس کے گھر والوں کو ماہانہ 150 روپے تنخواہ ادا کرتی رہی۔ سرجیت سنگھ کا موقف تھا کہ اگر وہ بھارتی فوج کا کام نہیں کر رہا تھا تو اس کے گھر والوں کو تنخواہ کیوں ادا ہوتی رہی۔ سرجیت سنگھ کو لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا اور 1985میں ملٹری کورٹ نے اسے سزائے موت سنا دی 1989 میں صدر اسحاق خان نے اس کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی۔ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ان ممالک کی بھی جاسوسی کرتی ہے جس کو 45 سالہ بھارتی جاسوسی رنجیت کو جرمنی کی ایک عدالت نے سکھوں کی جاسوسی کے الزام میں 9 ماہ کی قید کی سزا سنائی تھی۔ پاکستان جاسوسی کے لئے آنے والا ایک اور بھارتی جاسوس رام راج بھی تھا جو 18 ستمبر 2004 کو پاکستان آیا مگر اگلے دن گرفتار کر لیا گیا۔ پاکستان کی جیلوں میں 8سال رہنے کے بعد جب وہ بھارت واپس پہنچا اور ان حکام سے رابطہ کیا جنہوں نے اسے پاکستان جاسوسی کیلئے بھیجا تھا تو ان حکام نے اسے پہنچاننے سے انکار کر دیا۔ 1988 میں پاکستان جاسوسی کیلئے آنے والا گربخش رام دو سال تک پاک فوج کے زیر استعمال اسلحہ کی معلومات لے کر واپس بھارت جا رہا تھا کہ پکڑا گیا۔ 2006 میں اسے رہائی ملی۔ رام پرکاندی 1994 میں پاکستان ا ٓیا 13 جون 1997 کو واپس جاتے ہوئے گرفتار ہوا۔ 7 جولائی 2008 کو رہا ہوا ۔ اوم پرکاش 1998میں پاکستان آیا، اس کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ ونود ساہنی جاسوسی کرنے سے قبل ٹیکسی ڈرائیور تھا۔ 1977 میں پاکستان بھیجا گیا مگر اسی سال گرفتار ہو گیا۔ مارچ 1988 میں رہائی کے بعد بھارت واپس چلا گیا۔ سورام سنگھ 1974 میں پاکستان داخل ہوا مگر سرحد پر ہی رینجرز نے گرفتار کر لیا۔ 13سال قید کاٹنے کے بعد 1988 میں واپس بھیجا گیا۔ بلوپر سنگھ 1971میں پاکستان آیا۔ 1974 میں گرفتار ہوا 12 سال قید کاٹنے کے بعد 1986میں بھارت واپس گیا۔ اسی طرح مختلف اوقات میں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوسوں میں دیوت، سنیل، ڈینیئل، تلک راج اور ستپال شامل ہیں جو جیل کاٹنے کے بعد واپس بھارت گئے۔