’’پاکستان میں پولیس کا کردار‘‘، یہ عنوان حساس موضوعات سے تعلق رکھتا ہے، عملاً پاکستانی عوام، اپنی اپنی سطح پر بحیثیت مجموعی سرکاری اہلکاروں کے یرغمالی ہیں، ریاستِ پاکستان کے سرکاری اہلکاروں کی ’’طبائع‘‘ قانون کی جس تعبیر کا اطلاق کرنا چاہیں لوگوں کو، اپنی اپنی سطح پر وہی تعبیر قبول اور برداشت کرنا پڑتی ہے۔
یہ ایک وسیع مگر گنجلک مسئلہ ہے جس میں پاکستانی عوام تہذیب اور توہین کے قیدی بنے رہتے ہیں۔ پولیس کے حوالے سے ہمارا آغاز مقامی معاصر کے ایک ادارتی نوٹ سے ہوتا ہے جس میں فیصل آباد کے ایک سنار کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے تناظر میں معاصر نے اپنے نقطہ نظر کو نہایت جرأت کے ساتھ پیش کیا۔
4؍ جولائی 2019کی اشاعت میں معاصر کا کہنا ہے:’’گزشتہ روز (گویا 3؍ جولائی 2019کو) فیصل آباد کے علاقے مکوآنہ میں پولیس نے 32سالہ سنار مقصود اور اس کے بھائی شوکت کو گھر سے زبردستی اُٹھا لیا۔
بعد ازاں سی آئی اے اہلکاروں کے مبینہ تشدد سے مقصود جاں بحق ہو گیا۔ مقتول کے لواحقین کو جب مقصود کی ہلاکت کا علم ہوا تو وہ لاش مکوآنہ چوک میں رکھ کر احتجاج کرنے لگے۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھرائو کیا جس کے بعد پولیس اہلکار بھاگ گئے۔
ایک پولیس اہلکار مظاہرین کے قابو میں آ گیا جس کی پٹائی کی گئی۔ مظاہرین جو ہاتھوں میں ڈنڈے لئے ہوئے تھے انہوں نے پولیس چوکی پر حملہ کر دیا۔ مظاہرہ رات گئے تک جاری رہا‘‘۔
معاصر کا نقطہ نظر یہ ہے: ’’پاکستان میں پولیس کے اس طرح کے جرائم کے خلاف اب تک کا ریکارڈ بہت مایوس کن ہے۔ سینکڑوں افراد پولیس جعلی مقابلوں میں ہلاک کر چکی ہے مگر آج تک کسی پولیس اہلکار یا افسر کو سزا نہیں ملی۔
اس طرح پولیس کی حراست میں کئی افراد کی وحشیانہ تشدد سے ہلاکت ہو چکی ہے مگر ان کیسوں میں پولیس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی‘‘۔ معاصر پولیس کی جدید ترین طریقوں سے تربیت پر زور دیتا اور بالآخر خبردار کرتا ہے۔
’’اگر جزا و سزا کا نظام رائج کر دیا گیا تو پولیس کے محکمے میں تبدیلی آ سکے گی وگرنہ عوام میں مایوسی بڑھے گی اور پولیس کی وحشت ناکی بڑھتی چلی جائے گی‘‘۔
ہماری عاجزانہ رائے کے مطابق مستقبل میں بھی صرف ’’پولیس کی انتہا پسندی‘‘ بڑھے گی۔ وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کی سات دہائیوں کا گہری نظروں اور یادداشت کے ساتھ مطالعہ کیا ہے، وہ صرف ایک نقطے پر غور کر لیں جس کا تعلق پنجاب پولیس سے ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد کے سپاہی سے لے کر آئی جی‘‘ تک پولیس کی تنخواہوں اور حالاتِ کار کی ناگفتہ بہ زیادتیوں پر اس محکمے کی آہ و بکا سے ایسا لگتا تھا، پورا پنجاب ’’جناز گاہ‘‘ بن چکا ہے۔ کہا جاتا تھا، ان کی تنخواہیں اور حالات کار درست کر دینے پر یہ ’’عوام‘‘ کی جان، مال خصوصاً عزت کے ’’شیر دل محافظ‘‘ ہوں گے۔
آج آپ اس غریب ملک میں ان لوگوں کی تنخواہوں، مراعات، ان کے مطالبوں پر اربوں روپوں کے مخصوص کردہ اب تک کے بجٹوں پر ششدر رہ جائیں گے مگر سچ کیا ہے؟
وہ پولیس کانسٹیبل جو 49,48میں ’’بےعزتی‘‘ کرنے میں تھوڑی سی ’’حیا‘‘ کرتا تھا، آج بےپناہ مادی فوائد کے باوجود ’’حیا‘‘ تو رہی ایک طرف پوری دیدہ دلیری سے ’’شہری‘‘ کے احترام کی ’’ایسی کی تیسی‘‘ کر دیتا ہے۔
آپ پہلے خود سے اور پھر قائداعظم سے سوال کریں گے ’’بتائو پاکستان ان ’’باوردی طاقتوروں! کے ہاتھوں ہمارے ’’احترام‘‘ کا نہایت تکبرانہ اسٹائل سے ’’قبرستان‘‘ تعمیر کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا؟ مرحوم رحمت علی رازی نے ایک بار اس محکمے کے بارے میں پورے سچ پر مبنی ایک اعلان کیا تھا، یہ محکمہ ختم کر دینا چاہئے، لیکن پاکستانی محکموں نے اِس ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب آپ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں 19جولائی 2019کو شائع شدہ ایک خبر پڑھیں، پھر بات کرتے ہیں۔
’’پنجاب پولیس کے 37افسروں اور اہلکاروں کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ سال میں ریپ، گینگ ریپ اور منشیات فروشی کے 32مقدمات ہوئے جن میں سے متعدد کے خلاف چالان مکمل نہیں ہو سکے‘‘۔ یہ انکشاف پنجاب انفارمیشن کے حکم پر پنجاب پولیس کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں ہوا ہے۔
پولیس اہلکاروں کے خلاف ریپ و گینگ ریپ مقدمات میں لاہور سرفہرست رہا جہاں پولیس افسروں اور اہلکاروں کے خلاف 9کیسز جبکہ منشیات فروشی کے 4کیسز رجسٹر ہوئے۔ اور جو بات کرنی ہے، وہ بس مختصر سی ہے، پنجاب میں پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات کی تاریخ کیلئے بھی ایک ریسرچ کونسل بنا دیں، آپ کو ان مقدمات کا ناکام انجام دیوار پر لکھا نظر آئے گا۔
کیسا اذیت ناک لمحہ ہے، مقدس اور حسین ترین الفاظ اپنی عظمت کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں، بنیاد ’’عوام‘‘ کو بنایا جاتا ہے مثلاً پولیس کا مورال نہیں گرنا چاہئے، شرتوں کی Backپر "No Fear"اور سینوں پر ’’محافظ‘‘ لکھ کر لوگوں کو ان کے مجاہد اول و آخر کا درس دیا جاتا ہے۔
یہ سب عمل کی عدالت میں ایک مہذب ترین انتظامی حربہ سازی ہے، شہری اپنی، اپنے ملک کی انتظامی فورسز کے سامنے صرف اور صرف ’’غلام‘‘ ہے، بس ملک کا نام ’’پاکستان‘‘ ہے۔