• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہابیے کے تجزیے کے بعد زمین پر قدیم ترین مادے کی دریافت

لندن (جنگ نیوز) نظام شمسی کے وجود سے قبل ذرات جھرمٹ میں خلا میں تیر رہے تھے ۔سائنسدانوں نے ایک شہابیے کا تجزیہ کرتے ہوئے کرۂ ارض پر موجود قدیم ترین مادے کو دریافت کیا ہے۔ سائنس دانوں کو 1960 کی دہائی میں زمین پر گرنے والی خلائی چٹان میں دھول گرد کے ذرات ملے ہیں جو کم از کم ساڑھے سات ارب سال پرانے ہیں۔قدیم ترین دھول یا گرد کے ذرات ہمارے نظام شمسی کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ستاروں میں وجود میں آ گئے تھے۔ ریسرچرز کی ایک ٹیم نےپنی ریسرچ کے نتائج کو شائع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تارے یا ستارے مرتے ہیں تو ان میں بننے والے ذرات اچھل کر خلا میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ نظام شمسی سے قبل والے ذرات پھر نئے ستارے، سیارے، چاند اور شہابیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس تحقیق کے اہم مصنف اور شکاگو فیلڈ میوزیم کے کیوریٹر و شکاگو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر فلپ ہیک نے کہا کہ یہ ستاروں کے ٹھوس نمونے ہیں۔امریکہ اور سوئیزرلینڈ کے ریسرچرز نے 1969 میں آسٹریلیا میں گرنے والے مرچیسن شہابیے کے ایک حصے میں موجود نظام شمسی کے وجود میں آنے سے قبل والے 40 ذرات کی جانچ کی ۔ فیلڈ میوزیم اور شکاگو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی اس ریسرچ کی شریک مصنف جینیکا گریر نے کہا کہ یہ ذرات کتنے قدیم ہیں کا پتہ چلانے کیلئے ریسرچرز نے یہ پیمائش کی کہ وہ ذرات خلا میں کائناتی کرنوں کے سامنے کتنا رہے۔ یہ کرنیں اعلی توانائی والی ہوتی ہیں جو کہکشاؤں سے گزرتی ہیں اور ٹھوس مادوں میں بھی داخل ہو جاتی ہیں ۔یہ کرنیں خود سے ٹکرانے والے مادوں سے رابطہ کرتی ہیں اور نئے عناصر بناتی ہیں۔ جتنی دیر تک یہ مادے کرنوں کے سامنے ہوتے ہیں وہ اتنے ہی عناصر بناتے ہیں۔ ریسرچرز نے ذرات کی عمر کا پتہ چلانےکے لیے عناصر نیون کی خاص شکل (آئیسوٹوپ) این ایی 21 کا استعمال کیا۔ ڈاکٹر ہیک نے کہا: ʼمیں اس کا بارانی طوفان میں ایک بالٹی رکھنے سے موازنہ کرتا ہوں۔ یہ فرض کرتا ہوں کہ بارش مسلسل ہو رہی ہے اور پانی کی جو مقدار بالٹی میں جمع ہوتی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ بالٹی بارش میں کتنی دیر تک رہی۔ اس میں جتنے نئے عناصر شامل ہوتے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ ذرات کتنی دیر کائناتی کرنوں کے رابطے میں رہے اور یہ بتاتے ہیں کہ وہ کتنے پرانے ہیں۔نظام شمسی کے پیدا ہونے سے قبل والے بعض ذرات قدیم ترین ذرات ثابت ہوئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ذرات 4.6 ارب سے 4.9 ارب سال تک پرانے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سورج 4.6 ارب سال پرانا ہے جبکہ زمین کی عمر 4.5 ارب سال ہے۔ بہر حال سب سے قدیم دریافت تقریبا ساڑھے سات ارب (7.5) سال پرانی ہے۔ڈاکٹر ہیک نے بی بی سی کو بتایا کہ صرف دس فیصد ذرات 5.5 ارب سال سے زیادہ پرانے ہیں جبکہ 60 فیصد ذرات اس سے کم عمر ہیں جن کی عمریں 4.6 ارب سال سے 4.9 ارب سال کے درمیان ہے اور باقی ماندہ قدیم ترین اور جدید ترین کے درمیان کے ہیں۔ انھوں نے کہا مجھے یقین ہے کہ مرچنسن اور دوسرے شہابیوں میں نظام شمسی کے وجود سے قبل کی بہت ساری دھاتیں ہیں جن کی نشاندہی کرنے سے ہم اب تک قاصر ہیں۔یہ دریافت اس مباحثے پر روشنی ڈالتی ہیں کہ کیا نئے تارے مستقل شرح پر بنتے رہتے ہیں یا پھر وقت کے ساتھ نئے تاروں کے بننے میں رفتار میں کمی بیشی نظر آتی ہے۔ڈاکٹر ہیک نے کہا کہ ان ذرات کی بدولت اب ہماری کہکشاں میں ستاروں کے وجود میں آنے کے وسیع زمانے پر پھیلے براہ راست شواہد ان شہابیوں کے نمونے میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ ہمارے مطالعے کی اہم دریافت ہے۔ ریسرچرز نے یہ بھی پتہ لگایا کہ نظام شمسی سے قبل والے ذرات عام طور پر خلا میں ایک ساتھ چپک کر گرانولا کی طرح بڑے سے جھرمٹ کی شکل میں تیرتے تھے۔
تازہ ترین