نجانے کیوں پاکستان میں توانائی کے مزید قابلِ تجدید ذرائع متعارف کرانے پر بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ متبادل اور قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر نئی پالیسی (ARE Policy) ایک سال سے زیادہ عرصے سے التوا کا شکار ہے اور اس کے نفاذ میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال دنیا میں ہونے والی پیش رفت کے برعکس ہے۔ اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا میں بہتر کارکردگی دکھانے والی معیشتیں وہ ہیں جو تیزی سے قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ کچھ دیگر ممالک بہت سست روی سے اس سمت بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار انہی ممالک میں ہوتا ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ جہاں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کا استعمال پہلے سے ہی مستحکم معیشتوں کو مزید مستحکم بنا دے گا، مشکلات کا شکار معیشتیں عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل نہیں رہیں گی۔ اس پر ایک تنقید یہ کی جاتی ہے کہ قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع استحکام نہیں رکھتے، چنانچہ ان سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگانا دشوار ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر دنیا میں بہترین معیشت رکھنے والے ممالک اس طرف کیوں بڑھ رہے ہیں؟ دسمبر میں ڈنمارک ہوا اور شمسی توانائی سے اپنی پچاس فیصد بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ اس نے صرف دس برسوں کے دوران قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار کو دو گنا کرکے یہ ہدف حاصل کیا ہے۔ بایو میٹریل اور پن بجلی کی سپلائی کے ساتھ اب ڈنمارک80فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے پیدا کر رہا ہے۔ تاہم کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو اپنی ضرورت کی100 فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈنمارک میں بجلی پیدا کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہوا ہے۔ اس کے لیے بہترین ترسیلی نظام، فعال گرڈ اور مربوط پلاننگ درکار ہے۔
کاربن ایندھن کے استعمال سے گریز کرکے قابلِ تجدید ذرائع کی طرف منتقلی کے راستے میں مزاحمت قابلِ فہم ہے، لیکن یہ پاکستان کے لیے سود مند نہیں۔ حکومت کے بنائے گئے ARE Policyکا مسودہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا کہیں زیادہ امکان دیکھ رہا ہے۔ صرف اسی طرح پاکستان میں توانائی کے شعبے کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔ کاربن ایندھن سے پیدا ہونے والی بجلی بہت مہنگی ہے اور یہ پاکستانی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ دوسری طرف حریف ممالک کہیں زیادہ سستی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان بھی قابلِ تجدید ذرائع استعمال کرے تو یہ اپنے صارفین کو سستے نرخوں پر بجلی فراہم کر سکے گا۔ چنانچہ پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل ہو سکیں گی۔ اس دوران یہ بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کر سکتا ہے جو تمام معیشت کی کمر توڑ دیتے ہیں۔
توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع متعارف کرانا ایک بات ہے لیکن توانائی کو بہترین طریقے سے استعمال میں لانا دوسری بات ہے۔ اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ بہتر طریقے استعمال کرتے ہوئے بھاری مقدار میں توانائی بچائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں ڈنمارک ایک اچھی مثال ہے۔ 1990ء کے بعد سے ڈنمارک کے معاشی حجم میں پچاس فیصد اضافہ ہوا لیکن یہ 1990ء کے مقابلے میں آج 8فیصد کم بجلی استعمال کرتا ہے۔
پاکستان بھی گھریلو اور صنعتی شعبوں میں توانائی کے استعمال میں کمی لا سکتا ہے۔ اس مسئلے کے بہت سے حل موجود ہیں۔ اس کے لیے اسمارٹ ٹیکنکل سلوشن کے ذریعے انرجی کی ترسیل اور استعمال میں جدت لائی جا سکتی ہے۔ یہ اقدامات گھریلو اور صنعتی پیمانے پر توانائی کے نرخوں میں کمی لا سکتے ہیں۔
یورپی بزنس مین پاکستان کے ساتھ شراکت داری کے لیے تیار ہیں۔ دنیا میں سولر پینل اور ونڈ ٹربائن بنانے والے اہم ترین صنعت کار اور جدید ترین ترسیلی نظام قائم کرنے والی کمپنیوں کا تعلق یورپ سے ہے۔ اگر درست سمت میں کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ٹیکنکل جدت پاکستان نہ آ سکے اور اس کی معاشی بہتری اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں کردار ادا نہ کر سکے۔
ہم ایک اہم عشرے میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کا سامنا ہے۔ کسی چیز کو مہنگے داموں حاصل کرنا نہ صرف گراں گزرتا ہے بلکہ مزید ستم تب ہوتا ہے جب وہ چیز نقصان دہ بھی ہو۔ اس وقت ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کو معاشی مسابقت کی دوڑ میں بھی کامیابی کی طرف گامزن کرنا ہے۔ یہ عشرہ عالمی سطح پر ہارنے اور جیتنے والوں کے درمیان فرق واضح کر دے گا۔ پاکستان لکیر کے کس طرف کھڑا ہونا چاہتا ہے؟
(صاحبِ مضمون پاکستان میں ڈنمارک کے سفیر ہیں)