• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُشمن ملک، نان اسٹیٹ ایکٹرز یا ان کے مقامی سہولت کاروں کی جانب سے مسلط کردہ ایسی غیر علانیہ اور خفیہ جنگ جس کے ذریعے ملک میں افراتفری، معاشی بدحالی اور عوام کو کنفیوژ اور فکری طور پر منتشر اور منقسم کر دیا جاتا ہے ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ ایک طرح کی ’’سائبر وار‘‘ بھی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ اس جنگ میں قوم کا مورال ڈائون کرنے اور انتشار پھیلانے کے لیے فیک آئی ڈیز اور نامعلوم اکاؤنٹس کے ذریعے شر انگیز ٹویٹس اور پوسٹس، مسلکی، لسانی اور علاقائی خلیج کو گہرا کرنے کے لئے نامعلوم تحریریں، اسی طرح فیک اور ایڈیٹ شدہ وڈیوز وائرل کرکے ملکی وقار کو سبوتاژ کیا جاتا ہے۔ ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ صرف حکومت، فوج یا دفاع پر مامور اداروں کا مسئلہ نہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی شکل میں اس کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ فرسٹ جنریشن وار تا ففتھ جنریشن وار فیئر جنگوں کے ماڈل وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ان ماڈلز میں سب سے خوفناک، تباہ کن اور ہمہ جہتی ماڈل ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ ماڈل ہے۔ ففتھ جنریشن ماڈل کو سمجھنے کے لیے گزشتہ ماڈلز کا اجمالی خاکہ ملاحظہ فرمائیں۔ فرسٹ جنریشن واری فیئر قدیم ترین جنگی ماڈل ہے، جو 19ویں صدی کے آخر تک چلتا رہا۔ اس ماڈل میں انفنٹری یا فوج کے دستے ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ہو کر لڑتے تھے اور انسانی قوت کے غلبے اور فوجی دستوں کی عددی برتری کو کامیابی کا منبع سمجھا جاتا تھا۔ سیکنڈ جنریشن وار فیئر ’’ٹیکنالوجی‘‘ کی جنگیں تھیں۔ ان جنگوں میں فوجی دستوں کی جگہ طاقتور ہتھیاروں نے لے لی اور جنگوں میں بڑا اسلحہ جیسے مشین گن، رائفل، توپ اور جنگی کشتیاں استعمال ہونے لگیں۔ اس ماڈل کے مطابق جس کے پاس دشمن سے بہتر اسلحہ اور بہتر فوجی تربیت ہوگی، وہی کامیاب ہوگا۔ یہ جنگی ماڈل 19ویں صدی کے وسط میں شروع ہوا اور ابھی تک کچھ جنگیں اسی کے تحت لڑی جا رہی ہیں۔ تھرڈ جنریشن وار فیئر ’جنگی آئیڈیاز‘‘ کی بنیاد پر شروع ہوا۔ اس ماڈل میں دشمن کو حیران کر دینے والی اچانک حکمتِ عملی اور جنگی چالوں پر زور دیا گیا۔ ان جنگوں میں مختلف چالوں سے دشمن کو ششدر اور مفلوج کر دینے کی نئی حکمت عملیوں کو کامیابی کی کنجیاں تصور کیا جاتا ہے۔ اس جنریشن کی جنگوں میں ایئر کرافٹس، یعنی جنگی طیاروں کا استعمال بھی شروع ہوا۔ فورتھ جنریشن وار فیئر، بے پناہ طاقت کا سُرعت سے استعمال کر کے دشمن کو کچلنے اور مفلوج و مغلوب کر دینے کی جنگی حکمتِ عملی اس ماڈل کا خاصہ ہے۔ پوری قوت کے ساتھ کارپٹ بمباری، ڈیزی کٹر بمباری اور افواج کی تیز رفتار پیش قدمی وغیرہ اس ماڈل کی مثالیں ہیں۔ ففتھ جنریشن وار فیئر مکمل طور پر غیر علانیہ جنگی ماڈل ہے، اس کے تحت کم خرچ بالا نشیں پراکسی لڑائیاں، مکمل فتح کے بجائے دشمن کو مسلسل مصروف رکھنا اور گھائل کرتے رہنا، دشمن کو اس کی معمولی غلطیوں اور پروپیگنڈوں کی وجہ سے علاقائی و عالمی سطح پر بدنام کرکے الگ تھلگ اور کمزور کرنا، عوام میں ذہنی خلفشار، احساسِ عدم تحفظ، احساسِ کمتری، لسانیت اور عصبیت پیدا کرنا شامل ہے۔ یہ جنگ سائبر اسپیس سے لے کر عملی میدانوں تک، جعلی خبروں و تصاویر سے لے کر جعلی کرداروں تک ہر محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ اس ماڈل کے تحت ملک میں خلفشار، معاشی بدحالی، نظریاتی ٹکراؤ اور انارکی پھیلانے کی منظم سازشوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ پاکستان، اسلامی فلاحی ریاست، اسٹرٹیجک وسائل اور مستحکم دفاعی صلاحیت پر مشتمل ایک ایٹمی ملک ہے۔ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کو روایتی یا ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے فتح کرنا ممکن نہیں، اس لیے وہ ففتھ جنریشن وار فیئر کے ذریعے اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کا میدانِ جنگ کسی زمانے میں ہماری افواج اور سرحدیں ہوا کرتی تھیں مگر اب دشمن کا نشانہ افواج اور سرحدیں ہی نہیں، بلکہ عوام اور پورا ملک ہے۔ خانہ جنگی اور انتشار دشمن کے کارندے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے عوامی مقامات پر دھماکے اور قتل عام کرواتے ہیں۔ ان حملوں کا اصل ہدف وہ نہیں جو مر جاتے ہیں بلکہ وہ کروڑوں لوگ ہوتے ہیں جو زندہ بچ جاتے ہیں اور جن کی بقیہ ساری زندگی خوف و ہراس، تشویش اور مایوسی میں گزرتی ہے۔ معاشی بدحالی بڑھتی ہے، صوبے ایک دوسرے پر اپنا حق دبانے کے الزامات عائد کر کے تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، قوم پرست و علیحدگی پسند تنظیمیں زور پکڑنے لگتی ہیں اور یہیں سے دشمن کو افرادی قوت میسر آ جاتی ہے۔ ہر ریاست چند اساسی نظریات کی بدولت معرضِ وجود میں آتی ہے، یہی نظریات آئین اور قانون کی شکل میں اس ریاست پر لاگو ہوتے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار فیئر کے ذریعے ان بنیادی تصوارت کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ریاست کی مختلف اکائیوں کو جوڑنے والے بنیادی تصورات اور آئین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں انارکی اور افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ پروپیگنڈوں کے ذریعے عوام میں جھوٹ، غیر ضروری تشویش، مایوسی، خوف اور نفرتیں پھیلاکر تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد اور نوجوان دشمن کا اولین ہدف ہوتے ہیں۔ پروپیگنڈوں کی ترویج کے لیے میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جاتا ہے، جس کا سب سے بڑا ذریعہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ہیں۔ میرے ہم وطنو! یاد رکھو کہ ہم ففتھ جنریشن وار فیئر کا شکار ہیں اور ہم پر مسلط کردہ یہ جنگ اتحاد و اتفاق کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی۔ اگر آپ اپنے پیارے وطن پاکستان کو افغانستان، عراق، شام اور لیبیا وغیرہ بننے سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں چوکنا رہنا ہوگا اور اپنے اردگرد ماحول پر گہری نظر رکھنا ہوگی کہ کہیں دشمن ہمارے درمیان تو نہیں چھپا بیٹھا۔ مشتری ہشیار باش کہ ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ دل و دماغ کی جنگ ہے!

تازہ ترین