ایف بی آر سے متعلق اس رپورٹ کی روشنی میں کہ گزشتہ برسوں میں جمع کیا گیا سالانہ ٹیکس اعشاریہ 65فیصد سے اعشاریہ 88فیصد کے درمیان رہا، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ72 سالہ تاریخ میں جب بھی ملک کی دگرگوں اقتصادی صورتحال زیرِ بحث آئی ہر بار اس کا مرکز سی بی آر یا ایف بی آر ہی رہا۔ شاید ہی کوئی دور حکومت ایسا گزرا ہو جس میں محصولات کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور نہ دیا گیا ہو۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو یہ کہنا پڑا کہ اگر یہ ادارہ ٹھیک نہ ہوا تو ہم اس کی جگہ نیا ادارہ بنا دیں گے۔ اس وقت بھی ریڑھ کی ہڈی کے حامل اس محکمہ میں اصلاحات کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو جو مجوزہ اصلاحاتی منصوبہ بھجوایا گیا ہے اس میں ایف بی آر افسران کا کہنا معنی خیز ہے کہ کسی بھی نئے طریقہ کار کے قیام سے پہلے اتفاقِ رائے قائم کیا جائے۔ اس ضمن میں اصلاحاتی کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ ایف بی آر میں دو کیٹگریز بنائی جائیں جن میں ایگزیکٹو اور خود مختار باڈیز شامل ہوں اور ایف بی آر کو خود مختار باڈیز میں شامل کیا جائے اس تجویز پر عمل درآمد کی صورت میں یہ ادارہ سیاسی مداخلت سے نکل کر آزادانہ ماحول میں کام کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں ایف بی آر ملازمین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سرکاری شعبے میں رہنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ متذکرہ رپورٹ میں ایف بی آر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ادارے کا مقصد محصولات میں اضافہ کرنا ہے اس بات کے پیش نظر ضروری ہو گا کہ وہ ممالک جہاں ٹیکسوں کی وصولی کا نظام درست سمت میں کامیابی سے چل رہا ہے اسے پاکستانی معیشت کے سانچے میں ڈھال کر رہنمائی حاصل کی جائے۔ اصلاحات کا عمل چونکہ قانون سازی کے مرحلے سے گزرے گا اور یہ کام روزانہ نہیں ہوا کرتے ضروری ہو گا کہ اسے بدعنوانی کے عنصر سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔