تقریباً 13,12برس قبل (19؍ مارچ 2006)کو مقتدر صحافی برادر سہیل وڑائچ کا روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور کے سنڈے ایڈیشن میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد سے ایک انٹرویو شائع ہوا تھا۔ قاضی صاحب کے اس انٹرویو میں کئے گئے سوال و جواب کے بعض حصوں سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
انٹرنیشنل اسلامی حکمتِ عملی کے حوالے سے اُسامہ بن لادن سے کسی بات چیت کے تناظر میں اُنہوں نے بتایا: ’’اس طرح میرے ساتھ ان کی کبھی بھی بات نہیں ہوئی۔ میرے پاس ایک بار پشاور میں ان کا ایک وفد آیا تھا، تو میں نے ان سے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن خود بےچارہ اپنے ملک سے باہر ہے۔ افغانستان میں وہ محفوظ نہیں ہے۔ پاکستان میں آئی ایس آئی جب چاہے گی، اسے جہاز میں بٹھا کر کسی دوسرے ملک کے حوالے کر دے گی، (ہنستے ہوئے) اس لئے میں اس طریقے سے ایسے آدمی سے کوئی معاہدہ نہیں کر سکتا، جس کا اپنا کوئی وطن نہ ہو‘‘۔ قدرتی طور پر منجھے ہوئے صحافی کا اگلا سوال وہی تھا جس کے سائے نے 7؍اکتوبر 1958کو ہی جنم لے لیا تھا، جب افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف نے اپنے حلفِ ملازمت سے روگردانی کی، مگر یہ سایہ 1988تک پہنچتے پہنچتے ان اداروں کی شکل میں پاکستانی قوم کے لئے ایسا آسیبی پنجہ بن گیا، جس نے مستقلاً اس کی گردن دبوچی ہوئی ہے۔ سہیل وڑائچ نے استفسار کیا: ’’پاکستان کے اندر خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور بینظیر کو بہت شکایات تھیں۔ آپ بھی سیاست کے کھلاڑی ہیں۔ کیا آپ کو بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اندرونی سیاست میں بہت متحرک رہتی ہیں‘‘؟ جواب میں بتایا گیا: ’’بالکل! سیاست میں ان کا کردار بہت زیادہ ہے۔ آج میں آپ کے سامنے انکشاف کرتا ہوں کہ خفیہ ایجنسیوں کا سیاستدانوں کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے۔ ایک بار ہم آئی ایس آئی کے سیف ہوم میں مذاکرات کر رہے تھے، جن میں مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا فضل الرحمٰن، وزیراعظم جمالی صاحب (اب سابق) اور چوہدری شجاعت حسین صاحب وغیرہ سبھی مذاکرات میں شامل تھے‘‘۔ انٹرویو نگار نے ضمناً وضاحت چاہی:’’کیا یہ الیکشن 2002ء (یعنی وہ انتخابات جو جنرل مشرف نے کرائے) کے بعد کے مذاکرات کا ذکر ہو رہا ہے‘‘؟ امیر جماعت اسلامی نے اعترافی جملے سے جواب شروع کیا۔ فرماتے ہیں:’’جی! 2002ء کے بعد ہم تو وہاں سیف ہائوس میں چلے جاتے تھے۔ ان سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے، بس اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے۔ جمالی صاحب کو وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی انہوں نے ایک سائیڈ پر بٹھا دیا تھا اور آئی ایس آئی کے جرنیل خود ہمارے ساتھ مرکزی کرسیوں پر بیٹھے رہتے۔ ہمیں بالکل اچھا نہیں لگا کہ ملک کے وزیراعظم کو ایک طرف بٹھا دیا گیا ہے، دوسرا جب ہم اٹھنے لگے تو جنرل احسان الحق نے ہمارے ایک آدمی کے ساتھ بہت بے ادبی سے بات کی۔ میں نے الگ سے انہیں یہ کہا کہ آپ یہ انداز ہمارے ساتھ کیوں اختیار کرتے ہیں، اگر ہم بھی آپ کے ساتھ یہی انداز اختیار کریں تو آپ کا کیا ردعمل ہو گا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ یہاں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں، باہر جا کر یہ رپورٹ کرتے ہیں کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ اس وجہ سے اس طرح کا سلوک کرتے ہیں کہ انہوں نے باہر جا کر یہ کہنا ہے تو اس طرح تو بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
جب واپس آئے تو میں نے مولانا شاہ احمد نورانی سے کہا (اللّٰہ انہیں غریق رحمت کرے) کہ اگر آپ کا اس بات پر اتفاق ہو تو ہم آئندہ خفیہ ایجنسیوں کی جگہ پر آ کر مذاکرات نہیں کریں گے۔ ہم چوہدری شجاعت حسین صاحب سے بھی کہیں گے کہ وہ اپنے گھر بلا لیں، اگر ضرورت ہو تو ان لوگوں کو بھی اپنے گھر بلا لیں، اس طرح سے سیاستدانوں کے گھروں پر جا کر مذاکرات کرنا ہمارے لئے آئی ایس آئی کے سیف ہومز سے کہیںبہتر ہو گا، مولانا نورانی صاحب نے کہا جزاک اللّٰہ! آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے‘‘ ۔
ہمارے ہاں کوئی نیلسن منڈیلا موجود نہیں، مستقبل قریب تو کیا مستقبل بعید میں بھی ایسا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا ورنہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو اب ایک ایسے ہی Truth Commissionکی ضرورت آن پڑی ہے۔ یہ کمیشن کم از کم یہ کرے کہ پاکستان ٹوٹنے سے لے کر پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہونے والے تباہ کن واقعات اور المیوں کے ذمہ دار اصل چہروں کی نقاب کشائی کی کوشش کرے، کچھ بھی نہ ہو سکے تو بھی پاکستانی عوام کو ان قوتوں اور افراد کے بارے میں کچھ نہ کچھ تو معلوم ہو ہی جائے گا جو اپنی ہی قوم کو رومن دور کے غلاموں کے مرتبے پر Dealکرتے رہے ہیں، یہ علیحدہ بات ہے یہ آرزو شاید کبھی پوری نہ ہو سکے۔