حذیفہ احمد
ماہرین کام کو مختصر طریقے اور آسانی سے کرنے کے لیے حیران کن طریقے متعارف کروارہے ہیں ۔ سائنس دانوں کا دعوٰی ہے کہ اب جینز میں میل ویئر (malware) نصب کرکے کمپیوٹر پروگراموں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔تحقیق کاروں کی ایک ٹیم نے ڈی این اے کی مدد سے سافٹ ویئر کو ہیک کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک جینیاتی مالیکیول میں نصب میل ویئر(Malware) کے ذریعے ایک کمپیوٹر پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔اس حیاتیاتی میل ویئر(Malware) کو یونیورسٹی آف واشنگٹن سیٹل کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے، اور اسے “دنیا کا پہلا ڈی این اے استعمال کرنے والا کمپیوٹر ہیکنگ سسٹم‘‘ کہا جارہا ہے۔
اس ہیک کے لیے ٹاڈایوشی کوہنو (Tadayoshi Kohno) اور لویس سیزے (Luis Ceze) کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے آن لائن خریدے جانے والے ڈی این اے میں نقصان دہ سافٹ ویئر کی اینکوڈنگ کی۔ اس کے بعد ماہرین نے اس ڈی این اے کو ایک سیکوینسنگ مشین سے گزارا، پھر اسے پراسیسنگ کے لیے ایک اور کمپیوٹر کی جانب بھیجا، جس پر تحقیق کاروں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
تحقیق کار تنبیہہ کرتے ہیں کہ ہیکرز کسی دن جعلی خون یا تھوک کے سیمپلز کی مدد سے یونیورسٹی کے کمپیوٹرز میں موجود ڈیٹا، پولیس کے فورینزک لیبس کی معلومات چوری کرنے یا سائنسدانوں کی جینوم کی فائلوں میں انفیکشن متعارف کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
اس وقت ڈی این اے کے ذریعے میل ویئر(Malware) پھیلنے کا زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ تحقیق کاراعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے سیکورٹی فیچرز غیرفعال کرکے اور ایک بائیوانفارمیٹکس پروگرام کو کھلا رکھ کر اپنے تجربے کی کامیابی کے امکانات میں اضافہ کیا تھا۔جینیاتی ماہر یانیوایر لخ کے مطابق سائنس دانوں کے تجربے کو ابھی عملی جامعہ نہیں پہنایا جاسکتا ہے ۔ماضی میں کوہنو نے ایک گاڑی کے پورٹ میں ہیک کر کے بلیو ٹوتھ کنکشنز کے ذریعے حملے کرکے ریموٹ طریقے سے قبضہ کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔
کوہنو کے ایک طالب علم پیٹر نے (peter ney) کا کہنا ہے کہ ہم اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز پر حملوں کی پیش گوئی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،تا کہ ان کے توڑ تلاش کیے جاسکیں ۔میل ویئر تخلیق کرنے کے لیے تحقیق کاروں کی ایک ٹیم نے کمپیو ٹر کےکمانڈ کو 176 ڈی این اے کے حروف A,C,G اور Tمیں تبدیل کیا۔
اس کے بعد ماہرین نے ان کو سیکو ینسنگ مشین میں ڈالا ،جس کے جین کے حروف پڑھنے کے بعد انہیں 0 اور 1 کی شکل میں اسٹور کیا ۔جینیاتی ماہر یانیوایرلخ کے مطابق انہوں نے سپل اوور (Spillover) کا فائدہ اُٹھا یا ہے ،جس میں اسٹوریج کے بفر سے تجاوز ہونے والے ڈیٹا کی تشریح کمپیوٹر کمانڈ کے طور پر کی جاتی ہے۔
اس کمانڈ نے ایک سرور سے رابطہ کیا ،جس پرکوہنو کی ٹیم نے کنٹرول حاصل کیا ہوا تھا، اور اس کے بعد یہ ٹیم اپنی لیب کے اس کمپیوٹر پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، جسے ڈی این اے کی فائل کے تجزیے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔سائنس دانوںکا کہنا ہے کہ مستقبل میں انہیں ڈی این اے کی مدد سے کمپیوٹر کی ہیکننگ پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔یونیورسٹی آف واشنگٹن کی ٹیم یہ بھی تنبیہہ کرتی ہے کہ جینیاتی ڈیٹا انٹرنیٹ اور ایپس پر زیادہ آسانی سے دستیاب ہے، جس کی وجہ سے ہیکرز روایتی انداز سے بھی اسے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
سینگر انسٹی ٹیوٹ میں بائیو انفار میٹکس کے ماہر جیمز بون فیلڈ کا کہنا ہے کہ بعض دفعہ ڈی این اے کے ڈیٹا کو منظم کرنے اور اس کی تشریح کرنے والے سائنٹیفک پروگرامز کو برقرارنہیں رکھا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنانا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے محققین نے جس پروگرام کو نشانہ بنایا تھا ،اُس کے مصنف بون فیلڈ تھے، ان کے مطابق یہ پروگرام جس کا نام fqzcomp تھا ،ایک مقابلے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور ا ن کا اندازہ ہے کہ اس کو کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا ہے۔