پنجاب سیکرٹریٹ کے مین گیٹ سے پہلے جو سڑک کرشن نگر کی طرف جاتی ہے، برسوں پہلے کا کوئی مارشل لاتھا، فرقہ ورانہ فسادات اُس مارشل لا کا سبب بنے تھے جس کے نتیجے میں حکومتِ وقت کو کرفیو نافذ کرنا پڑا اور انتظامیہ اُس سڑک سے کرشن نگر داخل ہونے کا راستہ بند کر رکھا تھا۔
لوگوں کے رش کی وجہ سے کچھ افراد بچ بچا کر گزر بھی گئے۔ ایک نوجوان لڑکا جب گزرنے لگا تو پولیس اہلکار کی نظر اُس پر پڑ گئی اور اُس نے کہا تم کرشن نگر کی حدود میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ کرفیو لگا ہوا ہے۔
لڑکا نوعمر تھا اُس کی پولیس اہلکار سے کچھ سردی گرمی ہو گئی۔ ابھی یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ مجسٹریٹ کی گاڑی وہاں پہنچ گئی بمع سیکورٹی گاڑی کے ساتھ، پولیس اہلکار نے مجسٹریٹ صاحب کو شکایت لگا دی جس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا اسے بھی گاڑی میں بٹھا دو۔
مجسٹریٹ کے کہنے اور لڑکے کے گاڑی میں بیٹھنے تک اہلکار نے پوری قوت سے اس کی پیٹھ پر ڈنڈے برسا دیئے۔ لڑکا چیخیں مارتا ہوا سیکورٹی ٹرک میں گر گیا۔ اس کے ساتھ اہلکار جو ٹرک میں سوار تھے انہوں نے اسے مزید بالوں سے کھینچا اور ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ اب وقوعہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح لڑکے کے عزیزوں کو پتا چلا ہو گا۔
ہو سکتا ہے کہ اس کے رشتہ داروں یا برادری میں پولیس اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہوں مگر ان چند لمحوں میں اسے ذاتی عناد کی بنا پر جس درندہ صفت تشدد سے گزرنا پڑا وہ ذہنی توہین اور تکلیف ہمیشہ کینسر بن کے اس کی ذات سے چمٹی رہے گی۔
اس کے رشتہ داروں یا برادری میں موجود سرکاری یا غیر سرکاری عہدیداروں نے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا ہوگا لیکن تا زندگی ذاتی عناد کی بنا پر برداشت کیا ہوا یہ تشدد اس کی روح سے ہمیشہ چمٹا رہے گا۔
برسوں پہلے کی بات ہے ایک تھانے کا ایس ایچ او رکشہ میں بیٹھا۔ یہ وہ دور ہے جب لکشمی چوک سے بھی کرایہ دو ڈھائی روپے بنتا تھا۔ جب وہ ایس ایچ او منزلِ مقصود پر پہنچا تو اس نے رکشہ ڈرائیور سے پوچھا، کتنے پیسے بنے؟
میٹر کیوں نہیں چلایا، ایس ایچ او نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے رسید کیا، وہ ہکا بکا رہ گیا۔ جواں عمری نے ایک ثانیے کے لئے جوش مارا مگر اس نے اپنا اٹھتا اٹھتا ہاتھ روک لیا چونکہ صبح عید الفطر تھی، اس کا سارا کنبہ اس کا منتظر تھا وہ خاموشی سے گھر واپس آ گیا، یہ معلوم نہیں اس جہنمی رویے کے مالک ایس ایچ او نے پیسے دیئے یا نہیں دیئے۔
ایک تسلی مجھے ہمیشہ رہتی ہے، میری طرح اس ایس ایچ او نے بھی زمین کے نیچے دو فٹ جانا ہے، وہاں پھر کیا ہوگا یہ نہ مجھے پتا ہے نہ اسے۔
ایک ریلوے اسٹیشن پر سواریاں اپنے اپنے ڈبوں میں بیٹھ گئیں۔ ٹرین چل پڑی، ایک ڈبے کی سواریوں میں جھگڑا ہو گیا، دو افراد چند سیٹوں پر اپنی ریزرویشن کا دعویٰ کر رہے تھے جب کہ مدِمقابل اس کو ماننے سے انکاری تھے۔
ان کے پاس بھی اس حوالے سے کوئی ثبوت ہو گا۔ لڑائی بڑھ گئی مگر ان دو افراد کے مقابل افراد سرکاری اہلکار تھے، لڑائی بڑھتے بڑھتے پلیٹ فارم پر آ گئی اور پھر ان سرکاری اہلکاروں نے اُنہیں اتنا مارا اتنا مارا کہ خود اس خوف سے پیچھے ہٹ گئے’’کِتے مر ای نہ جان‘‘۔
میں نے یہ جو واقعات بیان کئے ہیں یہ سب میرے ایک دوست کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ ان کو بیان کرتے وقت میرا خدا مجھے ریکارڈ کر رہا ہے، اس لئے میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں، مقصد دراصل ان وقوعہ جات کے بتانے سے آپ کو پاکستانی سسٹم سے آگاہ کرنا ہے۔
پاکستان کا سسٹم یہ ہے، ہم پاکستانی سول یا غیرسول اشرافیہ کی ’’رعایا‘‘ اور ’’غلام‘‘ ہیں۔ ’’حب الوطنی‘‘ کے نام پر اس ملک کی خامیوں کا تذکرہ جس طرح روکا گیا، پھر جس طریقے سے پاکستان میں بڑے بڑے انسانیت سوز ظلم کی آگاہی کی راہیں بند کی گئی ہیں۔
مقصد آپ کو ’’اس کھلواڑ‘‘ سے آگاہ کرنا تھا۔ ورنہ کسی ملک کی خامیوں کے ذکر کا ہرگز مطلب یہ نہیں، آپ اس ملک کے محب وطن شہری نہیں ہیں۔ جوں جوں پاکستان کی عمر بڑھتی گئی، پاکستان کی اشرافیہ نے مندرجہ ذیل اقدامات پر خاص زور دیا اور ان اقدامات کا پروپیگنڈہ ہمیشہ جاری رکھا۔
-oہماری تنخواہیں کم ہیں، اُس وقت بھی (14؍اگست 1947کو( اور اِس وقت بھی (29جنوری 2020)۔ o-ہماری مراعات نہیں ہیں۔ ہمارے بچوں کو تحفظ نہیں۔ ہمیں میڈیکل سہولتیں میسر نہیں۔
ہم دن بدن برباد اور لٹتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام ان کی باتیں سن کر اپنی دلوں میں دبا لیتے ہیں۔ اب جو بھی آس ہے شہنشاہوں کے شہنشاہ اور طاقتوروں کے طاقتور سے ہے، دل خوش ہو جاتا ہے یہ سوچ کر کہ جس طرح ہم زمین کے اندر چھ فٹ تک جائیں گے یہ بھی ’’جائیں‘‘ گے۔
اِن طاقتوروں کی اکثریت کے 71,70برس کے سارے ظلم و ستم کے سلسلے میں پوشیدہ باطنی اشٹام کو صرف ’’چھ فٹ‘‘ کی اس سچائی سے ٹھنڈ پہنچ جاتی ہے۔