• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راحت علی صدیقی قـاسمی

کاروانِ حیات ایسی خاردار وادیوں سے گزرتا ہے جو دامن زیست کو تار تار کردیتی ہیں۔ زندگی درد، کڑھن، تکلیف، الم اور مصائب کی منہ بولتی تصویر ہے ،جہاں انسان جہد مسلسل سے تھک کر چور ہوجائے تو ہوجائے مگر شکوہ کناں ہونا جرم، اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوہی اس کی آبلہ پائی کے مرہم ہوتے ہیں نہ کوئی علاج غم ، نہ اس کشمکش سے کوئی فرار اور نجات بس دوڑتے رہئے اور تقاضائے حیات کی جستجو میں منہمک رہئے، جس کی ترجمانی فیض احمد فیض نے اس طرح کی:

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے،جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

یہی فلسفہ حیات ہے،یہی زندگی کی تصویر کشی،عکاسی اور ترجمانی ہے۔ ہر ذی شعور اس کے تقاضوں سے باخبر ہے، ان تقاضوں کو اپنے دامن میں رکھنے کے باوجود مسکراہٹ کا تصور جرم سا لگتا ہے، ہاں اگر کبھی کبھی یہ خیالات آزادی دیں تو اس جرم کا ارتکاب کیا جاسکتاہے، مگر تیزی سے گردش کرتی نبض حیات اس کی مہلت کم ہی فراہم کرتی ہے اور کم ہی ایسے مواقع میسر آتے ہیںجب انسان فکرِ حیات کو قہقہوں میں اڑا رہا ہو، ان تمام جھمیلوں کے ذہن پر سوار ہوتے ہوئے قہقہہ لگانا بڑا مشکل امر ہے اور قہقہہ بار مجالس تو حقیقتاً دلاوری ہی ہے جس کو کوئی بہادر اور دلاور ہی سر انجام دے سکتا ہے اور دے گیا ہے، دلاور فگار نے جس خوبی و خوبصورتی سے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ تصور سے پرے ہے، بہت ہی کم افراد ہیں جو اس خوبی سے اس صنف سخن کے نوک و پلک سنوار سکے اور سسکتے تڑپتے مسائل کے بوجھ میں دبے افراد کو قہقہوں کا تحفہ عنایت کرسکے۔

طنز ومزاح کے عظیم شاعر دلاور فگارنے اردو ادب کو اس صنف میں اکبر الٰہ آبادی کے بعد سنجیدگی عطا کی۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ معاشرہ کے چبھتے مسائل کو قہقہوں کا لباس عطا کرتے تھے اور اپنے طنزیہ تیروں سے گھائل کردیتے ۔ بلاشبہ مزاح نگاری ایک عظیم فن ہے ،جہاں ذرہ برابر چوک کی گنجائش نہیں، گویا کہ پل صراط پر چلنے کے مترادف اور آگ کے دریا کو ڈوب کر پار کرنے کے برابر ہے، جہاں ہلکی سی کوتاہی انسان کی بیوقوفی کی دلیل بن جاتی ہے اور ذرہ برابر خامی کی بھی کوئی گنجائش نہیں، اس خاردار زمین میں قدم رکھنا اور اس خوبی سے نبھانا کہ، اپنا پرایا ہر کوئی ان کے فن کا معترف ہوجائے، بڑی بات ہے، جس کو دلاور فگار نے چھوٹی ثابت کردیا، ان کی مزاحیہ شاعری فحش کلمات سے پاک ہے، وہ حساس مسائل کا مذاق اڑانا بھی جانتے ہیں اور معاشرہ کی ہر کمی اور کوتاہی پر طنز کرنا بھی نہ کوئی جھجھک ہے، نہ خوف اور نہ لحاظ۔ یہ شخص اردو کا بے لوث خادم تھا اور اکبر ثانی کہلانے کا مستحق اور حق دار بھی ۔گر چہ اور بھی لوگوں نے طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کی مگر جو فکر، جو لہجہ برجستگی دلاور کے یہاں تھی، وہ دوسروں کے یہاں نہیں ملتی بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس عہد میں اکبر نے دم توڑتی اس صنف سخن میںروح پھونکنے کی کوشش کی اور وہ اس میں ایک حد تک کامیابی بھی رہے مگر یہ بدقسمتی ہے کہ اردو شاعری کو دوسرا اکبر تو بڑی عرق ریزی کے بعد مل ہی گیا مگر دوسرا دلاور نہ ملا اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس کی امید بھی دم توڑ چکی ہے۔ چند افراد وہ ہیں جنہوں نے ابھی قریبی زمانے میں بھی اس فن کا بھرم رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دلاور کے مقام کو نہ پاسکے، وہ نابغہ روزگار اور یگانہ زمانہ ہے، آج ہم جس معاشرہ میں زندگی گذارتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مزاحیہ شاعری وفات پاچکی اور چند ایک اس پر ماتم کر رہے ہیں اور اس کی حالت زار کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب تو ہنسنے ہنسانے کے لئے فحش گوئی کا سہارا لینا پڑتا ہے اور صرف شاعری ہی نہیں بلکہ جو قہقہوں کے سامان ہوسکتے تھے یا مجالس ہوتی ہیں وہ بھی فحاشی اور عریانیت کا مظہر بن چکے، ایسا لگتا ہے کہ مسکراہٹ بغیر اس طریقۂ کار کے متصور ہی نہیں۔ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سادہ انداز لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنا پہاڑوں سے دودھ کی نہر نکالنے سے کم نہیں جو دلاور فگار پوری زندگی کرتے رہے۔انہوں نے کس خوبصورت انداز سے مزاحیہ شاعری کے گیسو سنوارے اور اس کے مقام کو دوچند کیا ، جس نے دلاور فگار کو شاعری کے بام عروج پر پہنچایا ان کی ایک طویل نظم کچھ اشعار ملاحظہ کریں:

کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں

کہنے لگے کہ آئو ذرا بحث ہی کریں

کرنے لگے یہ بحث کہ اک ہندو پاک میں

وہ کون ہیں کہ شاعر اعظم کہیں جسے

میں نے کہا ’جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکے

میں نے کہا کہ ’جوش‘ کہا قدر کھو چکے

میں نے کہا ’ساحر‘ و ’مجروح‘ و ’جاں نثار‘

ہوئے کہ شاعروں میں نہ کیجئے انہیں شمار

یہی وہ کلام ہے جس نے دلاور فگار کی شہرت کو سرحدوںکی قیود سے آزاد کردیا اور وہ بین الاقوامی شاعر قرار پائے۔ ان کی بلندی افکار اور مزاحیہ شاعری کا ڈنکا پوری اردو دنیا میں بجا۔ وہ مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے مشہور ہوئے، مگرا نہوں نے غزلیں بھی کہیں اور ان کی غزلوں کا مجموعہ 1954ء حادثہ کے نام سے اُس وقت شائع ہوا، جب ان کا تخلص شباب ہوا کرتا تھا، جس کے اثرات ان کی غزلوںمیں نمایاں ہیں۔ پھر انہوں نے تخلص بدلا، طرزِ شاعری بدلا اور طنز و مزاح نگاری کی سخت زمین پر کاشت کی جو ان کی عبقریت کی ضامن ہوئی اور ان کی خدمات لازوال ہیں جو ہمیشہ سراہی جاتی رہیں گی اور قدرو منزلت انہیںنصیب ہوتی رہے گی۔

تازہ ترین