• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جائے زیادہ سمجھدار اور زیادہ بیوقوف میں کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ دونوں کسی کی نہیں سنتے، سننے سے یاد آیا، ایک شوہر روزانہ سسرال فون کرکے اپنی ناراض بیوی کا پوچھتا، آگے سے ساس یہ کہہ کر فون بند کر دیتی کہ وہ تمہارے لئے مرگئی، آئندہ فون نہ کرنا، ایک دن تنگ آکر ساس نے کہا ’’تم کیوں روز روز فون کرتے ہو، جب کہہ دیا وہ تمہارے لئے مرچکی‘‘ خاوند بولا ’’یہی سننے کیلئے تو روز فون کرتا ہوں‘‘۔

کہا جائے جس نظر سے شادی شدہ کنواروں کو دیکھیں، اسے حسرت کہتے ہیں، شادی شدہ سے یاد آیا، آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لیتی بیوی نے شوہر سے پوچھا ’’جانو کیا میں بہت موٹی ہو گئی ہوں‘‘۔ لڑائی سے بچنے کیلئے شوہر نے زبردستی مسکراتے ہوئے جھوٹ بولا ’’ارے نہیں، بالکل بھی نہیں‘‘۔

خوشی سے پھولے نہ سماتی بیوی بولی ’’تو پھر جانو آؤ مجھے بازوؤں میں سما کر فریج تک لے چلو، تمہارا پسندیدہ گجریلا رکھا ہوا، ٹھنڈا ٹھنڈا گجریلا کھاتے ہیں‘‘ حالات اچانک آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھ کر شوہر گھبرا کر بولا ’’جانو تم یہیں رکو، میں فریج یہیں لے آتا ہوں‘‘۔

تجربے نے ثابت کیا کہ اپنی بیوی تیسرا سوال کرے تو بندہ چڑچڑا، بے زار، دوسرے کی بیوی درجنوں نہیں بیسیوں سوال کرتی رہے، بندہ خوشدلی، خوش اخلاقی سے علم و تحقیق کے دریا بہاتا رہے،

تجربہ تو یہ بھی ثابت کر چکا، انگریز اپنے بڑوں کی ذرہ بھر بھی عزت نہیں کرتے، نیوٹن، آئن اسٹائن ہمارے ہاں ہوتے تو ان کے سالانہ عرس ہورہے ہوتے، ویسے ہم بھی کیا زبردست قوم، اگست آئے تو سب سچے پاکستانی، رمضان آئے تو سب پکے مسلمان، جنگی سماں ہو تو سب فوجی، کھیل کا میدان لگے تو سب کھلاڑی، الیکشن ہوں تو سب سیاستدان، احتسابی موسم ہو تو سب نیب، بجٹ ہو تو سب ماہرینِ معاشیات، کوئی نئی خبر تو سب تجزیہ کار، کوئی بیمار مل جائے تو سب ڈاکٹر، کوئی ڈاکٹر مل جائے تو سب مریض، کوئی شرعی مسئلہ ہو تو سب مفتی، کوئی قانونی مسئلہ ہو تو سب وکیل، فضول سے فضول رسم یا رواج ہو، سب مالدار، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو تو سب زکوٰۃ کے مستحق، بھلا ایسی قوم سے کون جھگڑ سکتا ہے اور جھگڑ کر جائے گا کہاں۔

ابھی چند دن پہلے ٹی وی ڈرامے ’میر ے پاس تم ہو‘ کا دانش کیا مرا، چشمِ بددور، جو جگت پروگرام چلا، خداکی پناہ، دانش کی موت پر چند سیاسی تبصرے ملاحظہ کریں۔

دانش کو بروقت لندن پہنچا دیا جاتا تو بچ جاتا، ترجمان مسلم لیگ(ن)، سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی حکومت دانش کو بروقت آٹے کا تھیلا دیدیتی تو دانش بچ جاتا، بلاول بھٹو، پچھلی حکومت نے دانش کو مصنوعی طور پر زندہ رکھا ہوا تھا، ڈاکٹر فردوس عاشق، کیوں کیسا ہے۔

تجربہ ثابت کر چکا، پاکستانی سیاست میں ہر پانچ سال بعد علی بابا بدلے، چالیس چور وہی پرانے، اس بار امید تھی کہ علی بابوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی مگر اب پتا چلا یہاں تو ہر چور ہی علی بابا بن چکا۔

ویسے تو دنیا کا مشکل ترین کام اپنے علم پر عمل کرنا لیکن اگر عمل سے خالی انسان بےعلمے بھی ہوں، زیادہ ہوں اور اقتدار میں ہوں تو پھر وہی ہوتا ہے، جو ہورہا، ایسے ایسے شاہکار حکومت میں کہ وہ ملزم ڈرائیور یاد آجائے، جس سے جج نے پوچھا ’’تم نے بارات پر گاڑی کیوں چڑھائی‘‘ ملزم ڈرائیور بولا ’’جج صاحب آپ ہی بتائیں میں گاڑی چلا رہا تھا، اچانک بریک فیل ہو گئے۔

ایک طرف دو آدمی، ایک طرف پوری بارات، اب میں کیا کرتا‘‘ جج نے کہا ’’سیدھی سی بات ہے تم گاڑی دو آدمیوں کی طرف موڑتے، کم نقصان ہوتا‘‘ ملزم ڈرائیور بولا ’’جج صاحب میں نے بھی یہی کیا، گاڑی دو آدمیوں کی طرف ہی موڑی تھی مگر میں کیا کرتا وہ دونوں بھاگ کر بارات میں جا گھسے‘‘۔

ان دنوں جو حال تبدیلی سرکار گورننس کا، پٹواریوں کی موجیں، نت نئی حکومتی بونگیاں، نت نئی جگتیں، آجکل عمران خان کے حامیوں کیلئے کپتان کا دفاع کرنا بالکل وڈیو گیم جیسا، ایک لیول کلیئر کریں تو اگلا لیول پہلے سے زیادہ مشکل، ہاں تو بات ہورہی تھی جگتوں کی، عمران خان ایران، سعودیہ صلح کروانے کے مشن پر نکلے تو ایک پٹواری بولا ’’جو بندہ دس سال سے جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی میں صلح نہیں کروا سکا۔

وہ ایران، سعودیہ میں کیا صلح کروائے گا‘‘۔ چند دن پہلے ایک پٹواری کو کہتے سنا ’’کپتان نے بلا گھمایا، گیند 50لاکھ گھروں کے اوپر سے ایک کروڑ نوکریوں کو چھوتی ہوئی 350ڈیموں کے پار نئے صوبے میں جا گری‘‘،

ایک دل جلے کا فیس بک میسج دیکھا ’’کپتان جی تسی چور نئیں، پر ساڈی بس ہو گئی جے‘‘ مگر ایک طرف تبدیلی سرکار بےحال تو دوسری طرف ’ووٹ کو عزت دینے والوں کا بھی براحال‘ خزانہ خوری، بیانیہ خوری کے بعد بات ہوا خوری تک پہنچی ہوئی، باقی چھوڑیں، پچھلے دنوں سابق خادمِ اعلیٰ کی تصویر دیکھی، برانڈڈ کالے جوتے، اوپر کالی پینٹ، کالی پینٹ پر سفید شرٹ، سفید شرٹ پر پیلا سویٹر، پیلے سویٹر پر لمبا اوور کوٹ، لمبے اوورکوٹ پرر نگ برنگی ٹکٹائی، شوخ پیلا مفلر اور سر پر جناح کیپ، سابق خادمِ اعلیٰ کو دیکھ کر دل کانپ سا گیا، اللہ خیر، بیمار تو بڑے میاں تھے، یہ چھوٹے میاں کو کیا ہوا، وہ تو عمران نے کہہ رکھا ’’گھبرانا نہیں‘‘ ورنہ یہ تصویر دیکھ کر میں تو گھبرانے ہی والا تھا، یہ تصویر دیکھتے ہی شعر یا دآگیا:۔

کل بالٹی کے پانی میں تیرا عکس دیکھا

پھر بالٹی کو ہلا ہلاکر تیرا رقص دیکھا

ویسے اپنے شہباز شریف کے بارے میں سب متفق، یہ ٹوپیاں پہننے بلکہ پہنانے کے ماسٹر بلکہ ٹوپیوں والی سرکار، ان کے پاس ہر موسم، ہر رنگ اور ہر مزاج کی ٹوپی، بوقت ضرورت پہنیں، پہنائیں، سیلابی دنوں میں ملائیشیا سوٹ، لانگ شوز، سرپر کاؤ بوائے ہیٹ، ہنگامی دنوں میں خاکی سفاری سوٹ، سر پر رنگ برنگے ہیٹ، انقلابی دنوں میں سرپر بھٹو کیپ، مفاہمتی دنوں میں جناح کیپ اور اگر دن مشکل ہو تو سلیمانی ٹوپی، میں تو انہیں جب بھی دیکھوں، وہ شیخ صاحب یاد آ جائیں۔

جو ہمراہ اہلیہ ایک ہوٹل کے سامنے سے گزرے، ہوٹل سے کبابوں کی اشتہا انگیز خوشبو آئی، اہلیہ بولیں، واہ کیا خوشبو ہے، شیخ صاحب بولے ’’پسند آئی خوشبو‘‘ اہلیہ جن کے پچھلے 3دن سے باسی ساگ کھا کھا کر کان تک سبز ہو چکے تھے، جھٹ سے بولیں ’’ہاں بہت پسند آئی‘‘ شیخ صاحب نے کہا ’’یہ بات ہے تو آؤ ایک بار پھر ہوٹل کے سامنے سے گزر لیتے ہیں‘‘۔

آپ ہی سمجھ ہی گئے ہوں گے، خادمِ اعلیٰ، اک واری فیئر شیر کی تمنا میں جناح کیپ پہنے فوٹو سیشن کروا رہے مگر آگے بھی شیر کا شکاری، جس کا کہنا سکون قبر میں ہے۔

تازہ ترین