سید اطہر حسین نقوی
کل بھی یہی نوجوان تھے، یہی اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور مدارس تھے ،یہی محلے اور گلیاں تھیں یہی پارکوں اور فٹ پاتھوں پر بیٹھے نوجوان ، بزرگ اور اہل قلم کی ٹولیاں تھیں ،یہی چائے کے کیفے، کافی ہائوس، تھیٹر اور سنیما تھے ،یہی پان کی دکانیں اور گرما گرم کھانوں کے ہوٹل آباد تھے، یہی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی آوازیں تھیں، محبتیں اور یاریاں تھیں اور سب سے بڑھ کر عزت و احترام، ادب و آواب، اخلاق و کردار کا پیکر نوجوان نسل تھی امن، اتحاد اور اک یکجہتی تھی، احساس کا رشتہ سب سے بڑھ کر تھا۔
نوجوان نسل تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی تھی۔ کھیلوں کے میدان آباد تھے ہر طرح کے کھیل ہوتے تھے کرکٹ، فٹ بال، ہاکی کے مقابلے ہوتے تو کہیں پتنگ بازی ہورہی ہے، کہیں بیڈ منٹن کھیلی جارہی ہے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے اپنے حلقہ احباب کے حساب سے تعلیم کے ساتھ ان سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے تھے ،اس کے باوجود نوجوانوں نے ترقی کے پہیے کو رکنے نہیں دیا۔ دنیا میں ہونے والی جدید ترقی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر اور جدید تعلیمی نظام سے استفادہ کرکے ترقی کی جانب ہمیشہ گامزن رکھا۔
دور حاضر میں اگر ہم آج کے نوجوانوں کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں تو ان میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی ہیں ،لیکن مزید کوتاہیوں کی وجہ سے ترازو کے دونوں پلڑے برابر نظر نہیں آتے۔دنیا بھر میں بلکہ ہم اپنے اردگرد کے ممالک کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نوجوان نسل جس شعبے کا انتخاب کرتی ہے تو سو فی صد نہیں تو کم از کم اسی فی صد مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے کیونکہ ان کا بنیادی نظام بہت مضبوط اور جامع ہے اور ان کے ادارے کافی مستحکم ہیں۔
حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن ان کا نظام اور اس کا انتظامی ڈھانچہ ہمیشہ قائم رہتا ہے ،جبکہ اس کے برعکس ہمارے یہاں بہت زیادہ معاشی استحصالی اورسیاسی اتار چڑھائو رہتا ہے ۔نوجوان ذہنی طور پر منتشر ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے نوجوانوں میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جن سے ہم ترقی کے مراحل طے کرسکتے ہیں۔ نوجوان ہر قوم کے لئے ایک عظیم سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے نوجوانوں کا تناسب پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ ماہرین تجزیہ کاروں اور معاشی علوم کے مفکرین کی رائے ہے کہ پاکستانی نوجوان ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کیونکہ پاکستانی نوجوان کے پاس ذہانت، قابلیت اور محنت و مشقت کا لامحدود ذخیرہ ہے اور پاکستان کا تعلیم یافتہ نوجوان ہر سال اپنے اپنے شعبہ جات میں ترقی کی نئی راہیں حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہتے ہیں اور مثبت طریقے سے اپنی قابلیت اور نئے نئے آئیڈیاز کو دیگر نوجوان ذہنوں میں منتقل کررہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں جس سے ہم ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکل سکیں لہٰذا ہمیں سب سے پہلے ان محرکات کی طرف ملکی وقار اور سلامتی کی خاطر توجہ مبذول کرنی چاہئے تاکہ ان کا ادراک کیا جاسکے۔
معاشی عدم استحکام، تعلیمی نظام کی بڑھتی باقاعدگیاں، روزگار کے مسائل، نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل، عدم تحفظ، معاشرتی ناہمواریاں، کرپشن، احساس کمتری، ناقص حکمت عملی، فیصلوں کا فقدان، وہ اہم اور بنیادی وجوہ ہیں جن کی وجہ سے ہماری نوجوان قوم مسلسل تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔دہرے تعلیمی نظام نے نوجوانوں کی سوچ کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، جس سے نسل نو متاثر ہورہی ہے اور اسی وجہ سے انتہا اور شدت پسندی کے عناصر غالب ہوتے جارہے ہیں۔
جس کے اثرات ان کی شخصیت اور ان کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں لیکن انہیں کوئی فکر نہیں۔ طالب علموں میں نقل کا رجحان مسلسل بڑھتا جارہا ہے انہیں علم کی قدر کرنا تک نہیں آتی بلکہ اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ ہمارے ایسے نوجوانوں کی ٹولیاں جب امتحانی مراکز سے فاتحانہ انداز سے باہر نکل کر نقل کرنے والے کاغذات پھاڑ کر فضا میں اڑاتے ہیں اور جب کوئی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ان پرچوں کو سمیٹتا ہے تو کہیں مطالعہ پاکستان کی تاریخ بکھری ہوئی ملتی ہے تو کہیں ‘‘نعوذ باللہ‘‘ اسلامیات کے نوٹس زمین پہ گرے ہوتے ہیں، تو یہ کیسا تعلیمی نظام ہے یہ کیسے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں اس کے باوجود اچھے نمبروں سے پاس ہوکر ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور ان نوجوانوں اور طالب علموں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں جو واقعی اس کے صحیح معنوں میں حقدار ہیں ۔
کیا ’’ہمارا علم فروخت ہو رہا ہے‘‘، پھر یہ ڈاکٹر، انجینئرز، اساتذہ اور وکیل بن کر قوم کی خدمت کے لئے پیش پیش ہوتے ہیں، ہر طرح کی ڈگریاں خریدی جاتی ہیں اور پھر یہ نوجوان نسل کا طبقہ عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو ترقی کی رفتار رک جاتی ہے، لیکن کرپشن میں ترقی ہونے لگتی ہے ان کے رویے میں عادات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے، ان کے نزدیک عام انسان کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ اسے حقیر تصور کرتے ہیں۔
اس کی بہت سی مثالیں ہمارے اردگرد معاشرے میں موجود ہیں۔ایسے نوجوان نسل کے نمائندے حقیقی معنوں میں جس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں وہاں کے ماحول کو دیکھتے ہوئے عزت و احترام، فرض شناسی اور اپنے اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں۔ اسپتالوں میں لمبی لمبی قطاریں موجود ہیں، مریض ڈاکٹروں اور اسٹاف کی راہ دیکھ رہے ہیں انسانی زندگی موت سے لڑ رہی ہے لیکن ڈاکٹرز احتجاج اور ہڑتال میں مصروف ہیں۔
امتحانات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے طالب علم ایڈمٹ کارڈ لے کر امتحانی مراکز کی جانب جارہے ہیں ،لیکن اساتذہ اور ان کا اسٹاف احتجاج کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ عوام انصاف کی منتظر ہے، بے گناہ افراد اپنے پیاروں کی رہائی کے لئے دعا کررہے ہیں لیکن ہمارے وکلاء برداری ہڑتال پر ہے، یہ وہ نوجوان نسل کے نمائندے ہیں جنہوں نے جس طرح اس مسند کی ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہے انہیں کوئی ڈر، خوف نہیں ہوتا، کیونکہ اس طرح کے تمام نظام مختلف مافیائوں کے زیر اثر ہوتے ہیں جس سے ترقی کی رفتار کو جس طرح بھی سست کیا جاسکے کرتے ہیں اور اسی بنا پر معاشرے میں دیگر برائیاں بھی جنم لیتی ہیں اور ہماری نسل نو اس جانب راغب ہورہی ہے جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اسٹریٹ کرائم کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے سے تعلیمی اداروں اور پوش علاقوں اور دیگر جگہوں میں منشیات اور آئس ڈرگ کا استعمال تیزی سے پھیل رہا ہے اور نوجوان نسل کا خاص طبقہ اس کا کثرت سے استعمال کررہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی بقاء اور نوجوان نسل کی اصلاح کے لئے ہنگامی طور پر ایسے قوانین مرتب کرنے چاہئیں جن سے نظام تعلیم اور دیگر بنیادی مسائل پر جلدازجلد قابو پایا جاسکے اور ہماری نسل نو دوبارہ آب و تاب کے ساتھ ہر میدان میں اپنی محنت، لگن اور کاوشوں سے آگے بڑھ سکے، ہر طبقہ فکر کو اس سلسلے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ، ڈاکٹرز، وکیل، انجینئر اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان نوجوان نسل کو سنبھالنا ہے اور سب سے پہلے والدین کو اپنی نسل پر خاص توجہ کی ضرورت ہے ،انہیں اس بارے میں مکمل آگہی ہونی چاہئے ابتدائی پرورش سے لے کر روزگار کے حصول تک ان کی رہنمائی کرنی چاہئے تاکہ تمام نوجوان بلاتفریق آگے بڑھ سکیں اور علم کی وحدانیت کو سمجھ سکیں یہ علم لفظ ’’اقراء‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔
جس کی حقیقت اور اہمیت سے ہر نسان عاقل و بالغ اور ہر نوجوان کو آشنا ہونا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے ایمان کی اولین پہچان ہے، اگر ہماری نسل نو اس کے رموز سے آشنا ہوگئی تو ہم ترقی کی راہ پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں اور ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کا بآسانی مقابلہ کرسکتے ہیں ،جس کی وجہ سے ہم تنزلی کی طرف جارہے تھے۔ ہمیں اب تیسری دنیا سے نکلنا ہے ہمیں اس نوجوان کو واپس لانا ہے جو ہمارے شاعر مشرق کا خواب اور قائد اعظم کی تعبیر ہے۔
ہمیں ہر شعبہ جات میں خلوص نیت کے ساتھ اپنی خدمات پیش کرنی ہے تاکہ پاکستان جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے نقشے میں ایک عظیم قوم کے روپ سے اجاگر ہو۔اگر ہر نوجوان صدق دل سے اپنا محاسبہ کرلے، ہم کیا کررہے ہیں تو ہم اپنی ذات کے ساتھ اپنے گھر ،محلے اور وطن کے ساتھ صحیح معنوں میں مثبت سوچ سے اپنے ملک و قوم کی خدمت کرسکتے ہیں۔