پاکستان کے متعدد علاقے جغرافیائی اعتبار سے نہ صرف منفرد حیثیت کے حامل ہیں، بلکہ قدرتی وسائل اورحُسن کی دولت سے بھی مالا مال ہیں۔ ان ہی میں تہذیب و ثقافت اور سیّاحت کے اعتبار سے صوبہ پنجاب کا ایک زرخیز مثالی شہر، بہاول پور بھی ہے، جس کی قدیم ترین تاریخ کی بھی اپنی ہی انفرادیت ہے۔ گرچہ جدید بہاول پور میں بلند و بالا عمارات، اسٹیڈیم، جامعہ اسلامیہ (اسلامیہ یونی ورسٹی)، صادق پبلک اسکول اور قائداعظم میڈیکل کالج سمیت متعدد مقامات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، مگر وہیں ڈیڑھ سو سالہ ایک خوب صورت تاریخی مقام ’’نور محل‘‘ کے حسن و رعنائی کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ یہ محل اپنے منفرد طرزِ تعمیرکے سبب اس شہر کی ایک بڑی شناخت ہے۔ ایک سو چالیس سال قبل یہ محل نواب صادق پنجم نے اپنی ملکہ نُور کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ تاہم، وہ اس میں صرف ایک رات ہی بسر کرسکیں۔
ہماری سیّاحتی ٹیم کے جملہ اراکین نے بہاول پورکے اس مشہور ثقافتی وَرثے کی سیّاحت کا پروگرام بنایا، توسب ہی لوگ خاصے پرجوش تھے۔ ہم نے روانگی سے قبل وہاں کی مختصر تاریخ کا بھی مطالعہ کیا کہ جس کے مطابق، برطانوی دورِ حکومت میں ریاست کا درجہ رکھنے والے اس شہر نے تقسیمِ ہند کے نتیجے میں 1947ء میں پاکستان سے الحاق کیا، تاہم، 1955ء تک اس کی ریاستی حیثیت ہی برقرار رہی۔ یہ برِصغیر کی واحد ریاست تھی، جس کی سرکاری زبان اردو اور مذہب اسلام تھا۔ دریائے ستلج اور دریائے سندھ کے کنارے واقع یہ شہر تین اضلاع بہاول پور، بہاول نگر اور رحیم یار خان پر مشتمل تھا، جس کی بنیاد 1690ء میں بہادر خان دوم نے رکھی، جب کہ نواب محمد بہاول خان سوم نے برطانوی حکومت سے ایک معاہدے کے تحت ریاست کو خود مختار حیثیت دلوائی۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں شمار ہونے والا بہاول پور شہر، ملتان سے 90 کلومیٹر، لاہور سے 420 کلومیٹر،رحیم یار خان سے 192کلومیٹر اور اسلام آباد سے 700 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں ایک زمانے میں دائود پوتوں کی حکمرانی رہی ہے، جو خود کو حضرت عباس ؓ کی اولاد بتاتے ہیں۔ 1748ء میں جب نواب صادق محمد خان اوّل کے پوتے، بہاول خان عباسی اوّل نے متحدہ ریاست بہاول پور قائم کی، تو پھر اس ریاست کا نام انہی کے نام سے منسوب ہوگیا۔ واضح رہے کہ بہاول پور پہلی ریاست ہے، جس نے3 اکتوبر 1947 ء کو پاکستان سے الحاق کیا اور اس کا سہرا اس وقت کے امیرِ بہاول پور، محمد خان خامس کے سر بندھتا ہے۔
یہاں کے بیش تر لوگ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔جب کہ یہاں کی اہم فصلوں میں گندم،گنّا، کپاس، چاول اور سورج مکھی وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، یہاں مختلف پھلوں کے باغات بھی موجود ہیں اور کثیر تعداد میں پیدا ہونے والے پھل، آم، کھجور اور امرود وغیرہ بیرونِ ملک درآمد کیے جاتے ہیں، جب کہ بڑے پیمانے پر پیاز، ٹماٹر، بند گوبھی اور آلو بھی کاشت کیے جاتے ہیں۔ بہاول پور کے اہم تعلیمی اداروں میں گورنمٹ صادق کالج، ویمن یونی ورسٹی، قائداعظم میڈیکل کالج اور اسلامیہ یونی ورسٹی شامل ہیں۔نیز، حیرت انگیز طور پر یہاں خواندگی کی شرح بھی بہت بلند ہے۔ یہاں ایک قدیم کتب خانہ بھی ہے، جس میں ایک لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں۔
بلاشبہ، یہ قدرت کی شان ہی ہے کہ علم و آگہی سے معمور اور انواع و اقسام کے پھلوں، سبزیوںسے مالا مال اس زرخیز خطّے میں صحرائے چولستان بھی واقع ہے۔ جہاں موجود ایک عالمی شہرت یافتہ قلعہ’’ دراوڑ‘‘ لق ودق صحرا میں ایک عجیب ہی منظر پیش کرتا ہے۔ قلعے کے حوالے سے مشہور ہے کہ یہ اُس وقت کی ریاست جیسلمیر کی ملکیت تھا، جسے یہاں کے بھٹّی راجہ کے بھائی نے تعمیر کیا۔
اُس وقت سے یہ قلعہ راجستھان کے راجپوت حکمرانوں کے زیرِنگیں رہا۔ اس کے علاوہ یہاں کے دیگر مقامات میں جامع مسجد الصادق، عجائب گھر، کرافٹ بازار، چڑیا گھر اور لال سوہنرا نیشنل پارک بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن فی الحال ہم نے بطورِ خاص یہاں کے تاریخی وَرثے ’’نور محل‘‘ کو دیکھنے کے لیے سفر کا قصد کیاتھا۔ رات کے طویل سفر کے بعد ہم صبح گیارہ بجے بہاول پور پہنچے، تو ہمارے ایک واقف کار، افتخار الحسن نقوی ہمارے منتظر تھے۔
کچھ دیر کی رسمی و غیر رسمی گفتگواور پُرتکلف ظہرانےکےدوران نورمحل دیکھنے کی خواہش دوچند ہوتی رہی۔ ذہن میں محل سے متعلق مختلف خیالات جنم لینے لگے کہ اس کی عمارت کا نقشہ کیسا ہوگا؟ تاج محل جیسا یا الف لیلوی داستانوں میں بیان کردہ محلوں کی طرح۔ ابھی ہم ان ہی خیالوں میں گم تھے کہ گاڑی آگئی اور ہم اپنی بارہ رکنی ٹیم اور میزبان کے ساتھ بستی ملوک شاہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک قدیم قبرستان آیا،جہاںکچھ دیر ٹھہر کر فاتحہ خوانی کی۔
اس قبرستان میں نواب بہادر خان اوّل کے علاوہ ریاست کے معروف بزرگ حضرت شاہ ملوک سمیت ہزاروں افراد آسودئہ خاک ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق، قبرستان کے قریب واقع بستی ’’مسیتہ‘‘ کے مقام پر محمد بن قاسم کی افواج نے پڑائو ڈالا تھا۔ یہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد جب ہم ’’نور محل‘‘ کےسامنے پہنچے، توپہلی ہی نظر میں اس کی خوب صورتی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
محل کے اطراف وسیع رقبے پر پھیلے سرسبز میدان میں گھنے درختوں کا سایہ بہت بھلا معلوم ہورہا تھا۔ محل کے احاطے میں داخل ہوئے، تو وہاں متعین گائیڈ نے مُسکرا کر پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ محل کے مختلف حصّوں کے دورے کے دوران گائیڈنے بتایا کہ یہاں کے کمرے، گنبد، فرش، راہ داریاں اور دالان وغیرہ اطالوی اور اسلامی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہیں۔ محل کی تعمیر کا کام 1872ء میں شروع ہوکر 1875ء میں مکمل ہوا۔ محل کیا تھا، لق و دق صحرا میں گویا بہشتِ بریں کا ایک ٹکڑا تھا۔ انتہائی خُوب صُورت وضع کا حامل یہ محل اپنی تعمیر کے وقت ہی سے فن ِ تعمیر کا ایک نادر شاہ کار ہے۔
یہ محل نواب محمد صادق خان چہارم نے اپنی بیوی ملکہ نور کے لیے بنوایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب اس محل کی تعمیر مکمل ہوگئی اور نواب محمد صادق اپنی ملکہ کے ساتھ یہاں منتقل ہوا، تو دوسرے ہی روز ملکہ نے محل کی بالکونی سے باہر کا نظارہ کیا، تو ان کی نظر نزدیک واقع قبرستان پر پڑی۔ قبرستان کی اُداسی اور سنّاٹا دیکھ کر انہوں نے نواب صاحب سے سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ نے میرے لیے قبرستان کے نزدیک محل بنوایا ہے، میں یہاں ایک پَل بھی نہیں رہ سکتی۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ وہاں سے ایسے نکلیں کہ پھر دوبارہ محل میں قدم نہیں رکھا۔
44 ہزار 600 مربع فٹ رقبے پر پھیلے ہوئے اس تاریخی محل کا نقشہ ریاست کے انجینئر، مسٹر ہینسن نے تیار کیا تھا۔ محل، اطالوی اور اسلامی فنِ تعمیر کا خُوب صُورت امتزاج ہے، جو بنیادی طور پر مستطیل نما دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ یہ بات بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ آج کے دَور میں جب معمولی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے مکانات کی مالیت کروڑوں روپے ہے، اُس وقت اس عظیم الشان محل کی تعمیر پر 20 لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔
محل کی تعمیر جب مکمل ہوگئی، تو اس کی بنیاد میں اُس دَور میں رائج ریاست کے سکّوں کی تھیلی، مختلف نقشہ جات اور محل کی تاریخ وغیرہ اس مقصد کے تحت رکھ دیئے گئے کہ مستقبل میں خدانخوستہ اگر عمارت موہن جودڑو کی مانند تاریخ کا ڈھیر بن جائے، تو اُس وقت کے لوگوں کو محل سے متعلق تحقیق میں زیادہ دشواری نہ ہو۔ محل کی خوب صورتی کے لیے درمیانی ہال اور مشرقی اور مغربی جانب رہائشی کمروں کے علاوہ چاروں کونوں پر چار کمروں کے اوپر مزید چار کمرے اسی لمبائی، چوڑائی کے تعمیر کیے گئے ہیں، جن کی چھتیں برج نما ہیں، اور ہر برج اپنے بڑے برج کے ساتھ پیوست ہے۔ محل کے اندر 32کمرے، 16 تہہ خانے، 6 برآمدے اور 5گنبد ہیں۔
وسیع و عریض کمروں میں رکھی قدیم الماریوں میں اُس وقت کے بہت سے قیمتی نوادرات بھی محفوظ کیے گئے ہیں۔ بیلجیم سے منگوائے گئے دو آئینے ہال کے دونوں جانب لگے ہوئے ہیں، وہاں موجود ایک شوکیس کے اندر بہاول پور ریاست کی کرنسی، ڈاک ٹکٹ، پرچم اور میڈلز کے علاوہ اُس وقت کے کچھ اخباراور اسٹامپ پیپرز بھی موجود ہیں۔ جرمنی سے منگوائے گئے اُس دور کا پیانو اب تک اپنی اصل حالت میں ہے۔ یہاں رکھے فرنیچراور دیگر اشیاء کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ تمام سامان اٹلی اور انگلینڈ سے درآمد شدہ ہیں۔ ہال میں وزراء اور امراء کے بیٹھنے کے لیے ایک جگہ مخصوص تھی، تو شاہی خاندان کی خواتین کے لیے بالکونی کے قریب جگہ مختص کی گئی۔
ہال کی انتہائی اونچی اور وسیع چھت پر کندہ کاری اورنقش و نگاری کا کام دیکھ کر اُس وقت کے کاری گروں کو داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ ہال کے ایک جانب ایک اسٹیج بھی بنایا گیا تھا، جس پر ایک طلائی کرسی پر بیٹھ کر نواب صاحب ریاستی امور چلاتے تھے۔ ہال سے ملحقہ کمروں کی دیواریں والیانِ ریاست کی تصاویر سے مزیّن ہیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ ’’ہال کی چھت پرہیروں سے مزّین قوی الجثّہ تین قیمتی فانوس لگے ہوئے تھے، جنہیں کسی دور میں چُرانے کی کوشش کی گئی، تو وہ گر کر ٹوٹ گئے۔ اُن کے گرنے سے جو نشانات پڑے، وہ اب بھی موجود ہیں۔‘‘ ہال کے دونوں جانب ریاست کے بزرگوں کی تصاویر آویزاں ہیں اورنیچے ان کی زندگی کے احوال مختصر طور پر درج ہیں۔
یہیں نواب صادق خان کی بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور برطانیہ کے شاہی خاندان سمیت دیگر اہم شخصیات کے ساتھ بھی کچھ یادگار تصاویر آویزاں ہیں، جب کہ مختلف دیواروں پر تلواریں اور دیگرقدیم اسلحہ بھی قرینے سے سجا کر رکھا گیا ہے۔ ٹھنڈک اور ہوا کے لیے اونچی چھتوں اور روشن دانوں کے علاوہ محل کی بنیادوں میں کچھ سرنگیں بھی ہیں، جن میں اُس دَور میں پانی چھوڑا جاتا تھا۔ پھر مخصوص سمتوں پر بنے روشن دانوں سے ہوا گزر کے فرش میں نصب جالیوں کے ذریعے محل کے اندر تک پہنچتی تھی۔
یہ سرنگیں آج بھی موجود ہیں، البتہ اب ان میں پانی نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ ائرکنڈیشنرز لگادیئے گئے ہیں۔مرکزی ہال کے ساتھ ایک اور چھوٹا ہال بھی ہے، جسے اب تصویر گیلری بنادیا گیا ہے، یہاں نواب خاندان کے والیان و حکمران کے علاوہ سلطنتِ برطانیہ کے دیگر نوابین، مہاراجوں، وائس رائوں اور گورنرز کی تصاویر بھی بڑی تعداد میں آویزاں ہیں۔ نیز، رات کے وقت محل کی روشنیاں اس عمارت کی خُوب صُورتی و دل فریبی میں ہزارگنااضافہ کردیتی ہیں۔
نورمحل میں نواب صاحب کے قیام کا زمانہ اگرچہ بہت مختصر تھا،تاہم اس کے باوجود محل میں بہت سی اہم سرکاری تقریبات منعقد ہوئیں۔ یہیں نواب بہاول خان کی دستار بندی کے علاوہ نومبر 1903ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل ہند، لارڈ برن کرزن نے نواب بہاول خان پنجم کو اختیارات تفویض کرنے کا اعلان کیا۔ جس میں ہندوستان کی اہم شخصیات کے علاوہ 100سے زائد برطانوی افسران نے شرکت کی۔ یہ محل، ریاست کے آخری دَور تک بطور سرکاری مہمان خانہ بھی استعمال ہوتا رہا۔
یہیں پاکستان کے دوسرے وزیرِاعظم، خواجہ ناظم الدین نے اپنے دورئہ بہاول پور کے دوران قیام کیا اور نواب صادق خامس نے ان کے اعزاز میں گارڈن پارٹی دی۔ 16فروری 1897ء کوملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی بھی اسی محل میں انتہائی دھوم دھام سے منائی گئی۔بہرحال، قلیل وقت میں نور محل جیسے تاریخی مقام کو قریب سے دیکھنے کے بعداندازہ ہوا کہ اس طرح کے تاریخی وَرثے جہاں ہمیں اپنی عظیم تاریخ کی یاد دلاتے ہیں، وہیں ہماری نئی نسل کو تاریخ سے روشناس کروانے کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔ ملکہ نور کے لیے تعمیر کیا گیا یہ محل آج سیّاحوں کے لیے یقیناً ایک پُرکشش مقام ہے۔
رولز رائس گاڑیاں......دل چسپ واقعہ
نواب صاحب سے متعلق گائیڈ نے ایک دل چسپ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’ایک مرتبہ نواب صاحب لندن گئے، تو انہیں مشہور مہنگی ترین گاڑی ’’رولز رائس‘‘ کا شو روم نظر آیا، وہ اندر گئے، وہاں انہیں ایک گاڑی پسند آگئی، انہوں نے گاڑی کی قیمت پوچھی، تو سیلز مین نے سادہ اور عام لباس میں ملبوس ایشیائی باشندہ سمجھ کر کہا ’’یہ گاڑی امیروں کے لیے ہے، آپ کی قوتِ خرید سے باہر ہے، آپ یہ نہیں لے سکتے۔‘‘ گویا اس نے ایک طرح سے نواب صاحب کو دھتکار دیا۔
نواب صاحب واپس ہوٹل آئے اور اگلے دن اپنے ملازمین کا ایک جتھالے کر شاہی ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ شو روم پہنچے اور چھے رولز رائس گاڑیاں خرید کر اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ ان گاڑیوں کو فوراً بہاول پور پہنچا کر وہاں کی بلدیہ کے حوالے کرکے کہو کہ ان گاڑیوں سے شہر کی سڑکیں صاف کرنے اور کوڑا اٹھانے کا کام لیا جائے۔ نواب صاحب کے حکم پر ایسا ہی کیا گیا، کچھ عرصے بعد یہ بات مشہور ہوگئی کہ رولز رائس گاڑیاں تو شہر کی صفائی پر مامور ہیں۔
اس طرح رولز رائس کمپنی کی کافی جگ ہنسائی ہوئی اور اس کا کاروبار ٹھپ ہونا شروع ہو گیا، تو بالآخر کمپنی کا مالک خود چل کر بہاول پور نواب صاحب کے پاس آیا اور معذرت کے بعد درخواست کی کہ کمپنی کی گاڑیوں کو صفائی اور کوڑے اٹھانے کے کام سے ہٹالیا جائے، ساتھ ہی تحفے میں مزید چھے گاڑیاں بھی پیش کیں۔