فاروق حسن گیلانی!
3اکتوبر 2011کے روز وہ کہانی اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک ہو گئی تھی جس کا آغاز 1960اور 1970کے کہیں دوران میں ہوا تھا۔ ہماری نو عمری جیسے بچپن کے اِس قصے کی بُنت سرگودھا کے دارالرحمت کے فٹ پاتھوں پر شروع ہوئی جسے مکمل ہونے میں قریب قریب 47برس کی مدت لگی۔
3؍اکتوبر 2019گزرا، فاروق کے اہلِ کنبہ کو میرے صاحبِ فراش ہونے کا علم نہیں، نہ ہی ڈیڑھ سال سے جاری بیڈ کی اس بیمار زندگی نے مجھے انہیں مطلع کرنے کے قابل چھوڑاہے۔ اکتوبر 2019نے میرے دل کے زخم ہرے کر دیے، روح اشکبار ہو چکی اور ذہن میں اداسیوں نے خود کو ایک بہترین بسیرے میں محصور کر لیا ہے، فاروق میرے آگے پیچھے رہتا اور میں روتا رہتا ہوں۔ اسے شروع سے میرے اردگرد رہنے کا شوق تھا اور مجھے آج اس کی یاد میں رونے کی رفاقت میں زندگی ملتی ہے۔
ان 47برسوں میں وہ طالب علم سے فوجی بنا، دل نے فوجی معمولات کو اپنے تال میل کے خلاف قرار دیا۔ وہاں سے کسی طور آزادی ہوئی، پھر سی ایس ایس کے امتحان کی تیاریوں اور گردشوں سے ہوتا وفاق پاکستان کا سیکشن آفیسر منتخب ہوا۔ اسلام آباد کے بیورو کریٹک سیٹ اپ میں ڈھل گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے تک پہنچ کے ریٹائرمنٹ کا پروانہ تھاما جس کے بعد اسلام آباد کی کھلی فضائوں میں دنیاوی لحاظ سے باقی رہ جانے والے ایک مین کام کو حسبِ ذوق حسین و جمیل مکانیت کی عمارتی تصویر میں مکمل کیا، اس میں خود قریب قریب ایک برس سے زائد قیام رکھا، اس کا اطمینان رہائش کے معاملے میں اس کے خوابوں کی تصدیق کرتا تھا۔ 3؍اکتوبر 2011کو دن چڑھے اس نے عالمِ ابدیت کے لئے ہم سب کو خدا حافظ کہہ دیا۔
47برس کی ملاقاتوں کی پرتیں بیان ہوتی رہیں گی۔ وہ میرے ساتھ کبھی چپ نہیں رہتا تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں میرے بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ یہ 47برس چپکے رہیں گے۔ کسان جیسی محنت سے سینچی جانے والی محبتوں میں فراق کا باب ہمیشہ اشکوں کی آبشار کی طرح موجود رہتا ہے۔ ایسی محبتیں آپ کو غم نہیں، روگ لگاتی ہیں۔ انسان کرب کی یہ فصل آخری سانسوں تک کاٹتا ہے۔ مگر مجھے اس کے ساتھ براہ راست Shareکرنے کا ایک مستقل راستہ مل گیا ہے۔ میں اسلام آباد اس کی ابدی رہائش پر جا کر ایصال ثواب کے بعد حضرت علیؓ سے منسوب روایت کی پیروی کرتے ہوئے اس سے ہم کلام رہا کروں گا۔ پہلے آپ وہ روایت سن لیں، آپ کی جانب سے میری بات سمجھنے کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جائے گا۔ عہد حاضر کے مومن، صد واجب الاحترام پروفیسر احمد رفیق اختر نے بیان کیا’’حضرت علیؓ کسی قبر پر جایا کرتے تھے تو گھنٹوں باتیں کرتے۔ اس کو پوری Detailدیا کرتے.....’’آج بازار میں یہ ہوا، فلاں کی گلی میں یہ ہوا، تمہارے بچے کے ساتھ یہ ہوا، تمہاری اماں کے ساتھ یہ ہوا....یہ تو ہیں میری خبریں، اب تم سنائو اندر کیا ہو رہا ہے؟‘‘۔
میں بھی شیر یزداں کی تقلید کرتے ہوئے اسے بتائوں گا، تمہارے جانے سے میں کافی مر گیا ہوں، یہ جو مریم، عائشہ، فاطمہ اور عمر ہیں، ان سب کا اپنی اپنی شخصی کمپوزنگ میں روٹین سے کہیں زیادہ وقت لگے گا، دراصل تم نے ان کی ماں کے ہوتے ہوئے بھی انہیں بالکل مرغی کی طرح اپنے پروں میں چھپا کے رکھا۔ ایک لحظہ بھی تو ’’وساہ‘‘ نہیں کھاتے تھے، اور سنو! جو تم اپنی حیاتِ مستعار کی ساتھی کو دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہتے تھے ’’گھر میں چاندنی بکھر گئی ہے‘‘جو پہلے لمحے سے میرے ہاں سگی بہن کا روپ رکھتی ہے، جسے میں اپنی دعائوں اور شفقتوں سے گندھے ہوئے لہجے میں ’’نیکیوں کی پنڈ، حاجن بی بی‘‘ کہے بغیر نہیں رہتا تھا،کو میں نے کوئی حرفِ تسلی نہیں کہا۔ تم دونوں مجھے پہلے دن سے ہی کبھی صفیہ اور جاں نثار اختر کی مانند لگتے تھے، کبھی اشفاق احمد اور آپا جیسے محسوس ہوتے، چنانچہ جب میں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا، اس کے نیر سمندر کی شکل اختیار کرنے لگے، میں نے اسے صرف اتنا کہا ’’میں جانتا ہوں ہم میں سے کوئی بھی تمہارے غم کا حصہ دار نہیں ہو سکتا۔ اپنی آنکھوں کے راستے جی بھر کے اپنا آپ بہا لو، مجھے معلوم ہے اب یہ تمہاری ساری عمر کا رونا ہے‘‘۔ چلتے چلتے تمہیں یہ بھی بتاتا چلوں، جونہی میں نے تمہارے مکان کے مین گیٹ پر قدم رکھا، اس مریم نے میرے کندھے پر سر رکھ کے مجھے اپنے باپ کی جدائی اور یادوں کے پورے دریا میں ڈبو کے رکھ دیا۔ کندھے سے سر ہی نہیں اٹھا رہی تھی۔ تمہیں یاد ہے تم اسے اپنا سب سے بڑا ’’بیٹا‘‘ بھی کہا کرتے تھے اور میں اسے ہمیشہ یاد دلانے سے باز نہ آتا ’’مریم! تم کم از کم مجھے انکل سعید‘‘ نہ کہا کرو۔ یہ انگریزی زبان کے لفظ ’’انکل‘‘ کی کیمسٹری میں مجھے چاچے کا رشتہ ملیریا زدہ سا لگنے لگتا ہے۔ مجھے چاچا سعید کہا کرو، خیر اب میں جا رہا ہوں، چکر لگاتا رہوں گا۔ انت کی ایک خوش نصیبی کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ نعمت عظمیٰ ہمیں ہمارے آقاﷺ کی وساطت سے نصیب ہوئی، یعنی ارتقائی دنیا کی اس بستی میں جب تم تحفے کے طور پر اپنےعزیزوں پر فاتحہ، دعائے مغفرت اور درود و سلام بھیجنے جاتے ہو، تب ان اپنوں کو تمہارے قدموں کی چاپ تک سنائی دیتی ہے۔ اب مجھے تو طمانیت ہی طمانیت ہے، جیسا بھی ان کا اُمتی ہوں، وہ ایسے رحمۃ للعالمین ہیں جن کے ذریعے جو بھی بارانِ رحمت برسے وہ اُمتی تو اُمتی دنیا بھر کے انسانوں اور دھرتیوں کے صحرائوں میں بہاریں انگڑائیاں لیتی اور سبزہ لہرانے لگتا ہے۔ تم تو فاروق ہو، جس کے جانے پہ میرے دل سے ہوک اٹھی:
مرزا بنا بھراواں ماریا اُودھی ننگی ہو گئی کنڈ!