• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائی روف تیزی سے گلی میں مڑ رہی ہے۔ نماز فجر پڑھ کر آنے والے ایک طرف ہو رہے ہیں۔ گاڑی میں اسکول کے بچے بچیاں کم نظر آرہے ہیں۔ ڈرائیور کی سگریٹ کی آگ اور دھواں زیادہ نمایاں ہے۔ شیشے بند ہیں۔ دھواں گاڑی میں ہی پھیل رہا ہوگا۔ ہمارا مستقبل یوں پرورش پا رہا ہے۔ ہمارے لاڈلے یوں دھواں نگل رہے ہیں۔

آج اتوار ہے۔ بچوں بچیوں کے ساتھ گزارنے کا دن۔ اب تو آپ بھی اس خوشگوار محفل کے لیے بےتاب رہتے ہوں گے۔ آپ کی اولادیں بھی یقیناً انتظار کرتی ہوں گی۔ بعض احباب تو صرف دوپہر کے کھانے پر یہ اہتمام کرتے ہیں۔ بعض بچوں کو حلوہ پوری، آلو کی بھجیا کے ناشتے پر لے جاتے ہیں۔ بہت اچھا لگتا ہے۔ ایک دن تو آپ کا بزنس اور دفتری الجھنوں کے بغیر نکلتا ہے۔ ایک روز تو آپ نفع نقصان کے گھیرے میں نہیں پڑتے۔

آج مجھے آپ سے بہت ہی حساس مسئلے پر بات کرنا ہے۔ ذرا توجہ سے سنیے گا۔ اولادوں میں سے کوئی نہ کوئی تو اسکول جا رہا ہوگا۔ آپ خود یا بیگم انہیں اسکول چھوڑتی ہیں۔ مگر اکثریت تو ایسے بچوں کی ہے جنہیں اسکول وین، منی بس یا بس لے کر جاتی ہے۔ 

بہت کم اسکول ایسے ہیں جن کی اپنی ٹرانسپورٹ ہے۔ ہماری سرکار اسے تو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتی۔ سرکاری اسکولوں کی اپنی بسیں تو ہمارا کلچر ہی نہیں ہے۔ پھر بچوں کو ہم انگریزی میڈیم میں پڑھا کر بابو بنانا چاہتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے آقا انگریز ترقی کا یہی راستہ بتا گئے ہیں۔ تمام پرائیویٹ اسکول اپنی بسیں یا وینیں نہیں رکھتے۔ 

اس لیے ایک نئی صنعت اور تجارت اسکول ٹرانسپورٹ سروس نے جنم لیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی انتظامیہ اور اسکول ٹرانسپورٹرز مل جل کر وہ ذمہ داری پوری کر رہے ہیں جو دراصل مملکت اور حکومت کی ہے۔ اسکول انتظامیہ اور ٹرانسپورٹرز قوم کی خدمت کے لیے نہیں، یہ زحمت اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کر رہے ہیں۔ 

اس میں منافع کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ وہ نہ تو سرسیّد ہیں نہ حکیم محمد سعید، نہ عبدالستار ایدھی اور نہ ہی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کہ سود و زیاں کا حساب نہ رکھیں۔

آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ نے یا بیگم نے یا کسی اور نے کبھی یہ جانچنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کے جگر کے ٹکڑوں کو جو ڈرائیور اور جو گاڑی شہر کے بےہنگم ٹریفک، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر لے کر جارہی ہے اس کا فٹنس سرٹیفکیٹ اس میں آویزاں ہے یا نہیں۔ 

یہ گیس سلنڈر سے چلتی ہے یا ڈیزل پیٹرول سے۔ اس کی سیٹیں کتنی ہیں۔ جتنی سیٹیں ہیں اتنے بچے اٹھاتی ہے یا کچھ بچوں کو کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ ڈرائیور کی عمر کیا ہے۔ اس کی نظر کیسی ہے۔ گاڑی چلاتے وقت سگریٹ پیتا رہتا ہے، موبائل فون پر باتیں کرتا ہے۔ گاڑی میں کون سے گانے بجائے جاتے ہیں یا کیسا میوزک سنا جاتا ہے۔ گاڑی کی رفتار کیا رکھتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی وقت نکالا۔ اسکول کے مالک یا پرنسپل یا ہیڈ سے جاکر اس سلسلے میں بات کی ہے۔ اسکول کی بلڈنگ کے بارے میں تو کسی اور اتوار کو تبادلۂ خیال کریں گے۔ آج تو اسکول وینوں پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔

ہمارے زمانے میں تو نہ پرائیویٹ اسکول تھے نہ ہی اسکول ٹرانسپورٹرز۔ میں، میرے بھائی، بہنیں سب ایک دو کلومیٹر پیدل چل کر ہی علم میں اضافے کے لیے اسکول جاتے تھے۔ آپ میں سے بھی اکثر کا یہی معمول رہا ہوگا۔

اسکول ٹرانسپورٹرز اب ایک مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔ سب ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ہو جاتے ہیں۔ ان سے پرائیویٹ اسکول مالکان بھی مل جاتے ہیں۔ اکیلے رہ جاتے ہیں مجبور والدین۔ 

یہ مافیا نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے سامنے اپنے جگر گوشوں کی سلامتی، علم کی تشنگی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے روزگار کی مجبوری۔ اتنا وقت ان کے پاس کہاں ہوتا ہے کہ ان مافیائوں کا مقابلہ کر سکیں۔ سارے پرائیویٹ اسکول ایسے نہیں ہیں۔ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشنوں میں درد مند پاکستانی بھی ہوتے ہیں۔

صوبائی حکومتوں نے اپنے طور پر اسکول ٹرانسپورٹ کے لیے قواعد و ضوابط تشکیل دیے ہیں۔ ان کا اعلان بھی کیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں قوانین پر عملدرآمد کی شرح بہت ہی کم ہے۔ ہم آزاد قوم ہیں۔ اس لیے ہر پابندی سے آزادی کو بھی اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ 

عام شہریوں کو جو ملک کے اصل مالک ہیں، کو اوّل تو قوانین سے اپنے حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے حتیٰ کہ اپنے راج دلاروں، پیاروں کی حفاظت سے بھی لاپروائی ہے۔ بہت سے والدین تو اسے غنیمت جانتے ہیں کہ چار سے چھ گھنٹے انہیں بچوں کی فکر نہیں کرنا پڑتی۔ حالانکہ یہی وقت ہے جب بچے کا ذہن نمو پا رہا ہوتا ہے۔ والدین کو ضرور دیکھنا چاہئے کہ اس کا ذہن کیا رُخ اختیار کر رہا ہے۔ 

میڈیا والوں کے بچے بھی اسکولوں میں جاتے ہیں۔ یہ اسکول ٹرانسپورٹ کے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کا کتنی بار جائزہ لیتے ہیں۔ سرکاری طور پر حکومت نے طے کیا کہ اسکول کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں کا رنگ نیلا ہوگا۔ فٹنس سرٹیفکیٹ ہرگاڑی میں آویزاں ہوگا۔ 

ہر ایسی گاڑی میں ایک کنڈیکٹر ہوگا۔ بچوں کے ہوتے ہوئے گاڑی پیٹرول پمپ پر نہیں جائے گی۔ اسکول کی ڈیوٹی کرنے والی گاڑی گیس سلنڈر استعمال نہیں کرے گی۔ ڈرائیور یا کنڈیکٹر سگریٹ نہیں پیے گا۔ اسکول ٹرانسپورٹ صرف اسکول کے لیے استعمال ہوگی۔ پک اَپ اسکول ٹرانسپورٹ میں استعمال نہیں ہوگی۔ ہر گاڑی کے دو دروازے ہوں گے۔ 

آگ بجھانے والا آلہ ضروری ہوگا۔ آپ نے اگر اب تک اس طرف توجہ نہیں دی ہے تو آئندہ ہفتے اس کے لیے وقت نکالیں۔

یہ جو ایم این اے، ایم پی اے ہیں ان کے بچوں کو تو ڈرائیور بڑی بڑی گاڑیوں میں چھوڑتے ہوں گے مگر ان کے ووٹرز کے بچے تو اسکول ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ ان کو خیال کرنا چاہئے کہ اسکول ٹرانسپورٹ بہتر اور رعایتی کرایوں پر دستیاب ہو۔ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اسکولوں کے لیے مخصوص وینیں بناکر دیں۔

آج اپنے بچوں سے بات کریں کہ وہ ڈرائیور انکل سے ڈرتے کیوں ہیں۔ اس کی باتیں آپ کو کیوں نہیں بتاتے۔

تازہ ترین