• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ باچا خان اور ولی خان اپنے دور کی متنازع شخصیات تھیں، وقت کیساتھ تہمتوں کے داغ دُھل گئے اور دونوں قومی لیڈر بن کر ابھرے۔ یہ سچ اُس بےباک فرحت اللہ بابر نے کہا جن کی جماعت نے ولی خان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر غداری کا الزام لگاکر پابندی لگائی تھی۔ 28جنوری کو باچا خان اور ولی خان کی برسی پر نیشنل پریس کلب میں اپنے خطاب میں جناب فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ اے این پی نے جمہوری قوتوں کے قائد کی برسی کی مناسبت سے دارالحکومت میں تقریب منعقد کی، اس جگہ کبھی ولی خان اور باچا خان کا نام لینا جرم تھا۔ اس موقع پر سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے اُس واقعہ کا ذکر کیا جب صدارتی انتخابات میں ولی خان نے جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ میر صاحب نے فرحت اللہ بابر کی اس بات کی تائید کی کہ تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے۔ یہی بات ولی خان اپنی زندگی میں تواتر سے کہتے رہے لیکن اشرافیہ و انگریز کے پروردہ وہ جاگیردار جو سیاسی میدان میں مقابلے کی صلاحیت سے عاری تھے، باچا خان و ولی خان پر آزاد پختونستان بنانے، نیز انہیں بھارت و افغانستان کا ایجنٹ کہہ کر غداری کا الزام لگاتے رہے۔ اس حوالے سے وارث میر صاحب کو انٹرویو میں ولی خان کا کہنا تھا ’’ہمیں عوام سے دور رکھنے کیلئے مسلم لیگی آزاد پختونستان کا شوشہ مارکیٹ میں لائے جسے 1952میں افغانستان نے اپنے عزائم کیلئے اُچک لیا، ہم تو 1948سے 1953تک جیلوں میں سڑ رہے تھے‘‘۔ باچاخان مرکز کراچی میں ان بزرگوں کی برسی پر پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے سیمینار کا اہتمام کیا تھا، جس کی صدارت سابق سینیٹر شاہی سید نے کی۔ راقم نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ افغانستان نے کس طرح ڈیورنڈ لائن کے تناظر میں پختونستان کا ایشو اُچھالا اور آج وہ اسی طرح کے عزائم کے ساتھ پی ٹی ایم کی حمایت میں افغانستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی مظاہروں کا سرخیل ہے۔ ہم نے سوال اُٹھایا کہ بشیر بلور سے لیکر ہارون بلور سمیت اے این پی کے سینکڑوں کارکنوں کی شہادت پر افغانستان کے کسی بھی علاقے میں کوئی مظاہرہ نہیں کیا گیا، کیا یہ شہدا پختون نہ تھے؟ کابل میں ہر پاکستانی کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہا جاتا ہے لیکن خود افغانستان نے گلبدین سمیت اُن نام نہاد مجاہدین کو سر پر بٹھا رکھا ہے جو افغانستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارا کہنا یہ تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب جب پاکستان میں پی ٹی ایم یا کوئی قوم پرست جماعت پاکستان کے آئین تلے سیاسی، جمہوری و صوبائی حقوق کیلئے میدان میں آتی ہے، افغانستان اس میں اپنے وہ عزائم جن کیلئے خود افغان حکومت اور وہاں کی جماعتیں کوئی لائحہ عمل نہیں رکھتیں، پاکستان کے ان قوم پرستوں کے منہ میں ڈالنے کیلئے سرگرم ہو جاتا ہے۔ ولی خان نے یہی استفسار شاہ ظاہر شاہ کی وزارت خارجہ کے کلید جناب روان فرہادی سے کیا تھا۔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’میں کابل میں تھا کہ مجھے روان فرہادی نے جشن پختونستان میں شرکت کی دعوت دی تو میں نے کہا کہ فرہادی صاحب یہ پختونستان کیا بلا ہے، وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے تو میں (ولی خان) نے جواب دیا کہ نہ تو آپ کوئی واضح موقف رکھتے ہیں اور نہ ہی ہمیں پاکستانی سیاست کرنے دیتے ہیں (تفصیلات ’باچا خان اور خدائی خدمت گاری‘ جلد دوم صفحہ 216تا222) چٹان میں جناب اختر کاشمیری کو انٹرویو دیتے ہوئے ولی خان نے کہا تھا جب صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کا اعلان ہوا تو ہم نے کہا کہ تقسیمِ ہند کے فارمولے کے تحت ہم پاکستان ہی کا حصہ ہوں گے تو پھر ریفرنڈم کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن جب یہی اصرار رہا تو پھر ہم نے کہا کہ اس میں ایک تیسرا آپشن پختونستان کا بھی شامل کیا جائے کہ عوام ہندوستان، پاکستان اور پختونستان میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں، یہ تجویز نہ مانی گئی لہٰذا ہم نے پھر ریفرنڈم کو لایعنی کہتے ہوئے بائیکاٹ کیا، اگر اس موقع کے علاوہ کوئی ’آزاد‘ پختونستان کے حوالے سے کوئی میری ایک بھی تحریر یا تقریر ثابت کرے تو مجھے گولی مار دی جائے‘‘۔ باچا خان نے بھی 1948میں پاکستان کی اسمبلی میں حلف لینے کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کے استفسار پر کہا تھا ’’تقسیمِ ہند کے متعلق ہمارا اپنا موقف تھا، اب ہم پاکستان کے شہری بن کر عوام کی خدمت کریں گے، اب ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے صوبے کو پختونستان، پختونخوا یا افغانیہ کا نام دیا جائے‘‘ (منتخب تقاریر از میاں افتخار الدین) ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کسی ردعمل سے قبل مرض کی تشخیص کی بنیادی ضرورت پر بھی توجہ دے، نیز اے این پی سمیت قوم پرستوں کو مشکوک بنانے کے بجائے ان کے محب وطن کردار کو سمجھا جائے۔

تازہ ترین