(گزشتہ سے پیوستہ)
2010سے لے کر جون 2011تک فاروق اور میں رابطے میں رہے۔ جون 2011کی شام میں اور میرے عزیز عابد خان برکی پہلی بار اس کے نئے گھر گئے۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر اندر قدم رکھا، مبارک باد دی، مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی۔ گویا وہ جو میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک تو ہے لا آف نیچر اور ایک ہے ڈیزائن آف نیچر، اس لحاظ سے آپ اسے خوش نصیبوں میں شمار کریں، قدرت کی اس پروگرامنگ کا میں عینی شاہد ہوں۔ اعلیٰ تعلیم، اعلیٰ ملازمت، باپ صاحب علم و زہد، خود مطالعہ اور قلمکاری میں یگانہ روزگار، اردو میں شاعری کو اس نے ہاتھ نہیں لگایا، جو ایک آدھ نظم کہی وہ بزبانِ انگریزی، فیملی کے ساتھ دنیا دیکھی، روزمرہ کے معمولات میں عملی مسلمان۔
فاروق کے رخصت ہونے پر صحیح معنوں میں اس کے نہایت قریبی بیورو کریٹ دوست توقیر شیخ سے میں نے کہا: ’’توقیر! ایک بات اب مجھے یاد آ رہی ہے۔ عجیب اتفاق ہے، فاروق سے 2010سے لے کر جون 2011تک جو بھی ملاقاتیں ہوئیں وہ اس میں ’’وقت‘‘ کا عنوان کھول دیتا۔ گفتگو کے آغاز میں کہیں بھی اچانک کہتا: ’’سعید! وقت کتنی تیزی سے گزر گیا، سب کچھ اس قدر جلدی بیت گیا، چند ثانیوں میں گزری ہوئی زندگی کی پوری ریل ختم ہو جاتی ہے، ایک ایک منظر سیکنڈ کا ہزارواں حصہ بھی نہیں لے پاتا۔ یار! دیکھو کس قدر، کس قدر اچنبھا سا ہوتا ہے۔ سامنے دروازہ دکھائی دے رہا ہے‘‘....یہ وہ عرصہ ہے جس کے دوران میں، خواہ میں اور وہ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں یا لاہور میں، ماحول کی چھت سے دھپ کر کے ’’وقت‘‘ کا موضوع ہمارے درمیان آٹپکتا۔ قدرتاً ہی مجھ پر قطعاً کوئی گھبراہٹ طاری نہ ہوتی۔ ’’وقت‘‘ کا یہ مکالمہ پتا نہیں کن کن باتوں کو محیط ہو جاتا، میں اکثر اسے سب سے زیادہ قرۃ العین حیدر کی مثال دیتا۔ میری کائناتی سی تقریر اسٹارٹ ہوتی۔ ’’دیکھو! یہ تم آرام سے آواری کی گرم گرم Petti، سلائس کیک کا ٹکڑا اور چائے انجوائے کرو، خدا کے لئے قرۃ العین حیدر کے فنامنے سے بچو۔ کائنات اور وقت کا مسئلہ تمہارے لئے تو بالکل ہی ہلکا پھلکا ہونا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو تو اللہ اور اس کے نبیﷺ نے اس فکر سے ہی نجات دے دی ہے۔ تمہیں تو مجھ سے کہیں زیادہ پتا اور معلومات ہیں۔ ان آیات کو ذہن میں رکھا کرو، جن کا مفہوم یہ ہے:’’جب تم دوبارہ اٹھائے جائو گے، تم میں سے بعض، بعض سے کہیں گے، ہم ایک دن یا زیادہ سے زیادہ دس دن سوئے ہوں گے یا اس سے بھی کم‘‘... اب ایسی لامحدودیت میں تم اس بحث ہی میں کیوں پڑتے ہو، الحمد للہ ایمان بالغیب ہمیں عطا فرما دیا گیا، فکر کاہے کی، پریشانی ان کو ہے جو زندگی کے تسلسل اور ارتقا کی نفی کرتے ہیں یا جو آج نظر آتا ہے، اس کو ابدیت کا اختتام قرار دیتے ہیں۔ عینی آپا (قرۃ العین حیدر) اسی ٹریجڈی سے مصلوب ہوئیں۔ ’’آپ کا دریا‘‘، میرے بھی صنم خانے،‘‘ ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ اور ’’کار جہاں دراز ہے‘‘، سب میں کس شے کی تلاش میں آہ و بکا، بلکہ بین برپا کر رکھے ہیں، وقت کہاں گم ہو گیا؟ میرا بچپن، وہ لکھنو کی اسٹو کریٹ تہذیب، بھارتی سماج کا لوک حسن، میرے باپ سجاد حیدر یلدرم، سب کچھ کہاں ہے؟ ابھی تو ہر شے یہیں تھی، آخر کو ایک طویل عرصے کے لئے قومے میں چلی گئی، جب مدتوں بعد ہوش آیا اپنے ہی اکلاپے کے دوش پہ مٹی کی چادر ہی اوڑھنا پڑی۔ کیا ضرورت تھی وقت کو پکڑنے کی غیر منطقی سعی میں، انسانی ادراک کی ممکنہ حدود سے پرے جھانکنے یا کوئی Verdictدینے میں کیا Logicہے؟ میں خطا کار جب جب بھی فاروق پر مغفرت و رحمت کی دعائوں کی پھوار برسانے جائوں گا، اپنے اور اس کے نبی ﷺ کا یہ فرمان ضرور سنائوں گا، یہ مجھے ڈاکٹر اجمل مرحومؒ کے ایک مضمون میں نظر نواز ہوا کہ ان کی اس تحریر کے لئے قدرت نے میرے بہت ہی عزیز بھائی ذوالقرنین مرحوم کو وسیلہ بنایا۔ آپ بھی سعادت حاصل کریں۔ فرمایا ’’لوگ نیند میں مخمور ہیں، جب وہ مرتے ہیں تو جاگ اٹھتے ہیں‘‘...ڈاکٹر مرحومؒ نے اس حقیقت کی بہت ہی خوبصورت وضاحت بھی کی۔ لکھا: ’’عام نظریے سے یہ بات صحیح ہے کہ موت نیند میں جانا نہیں بلکہ جاگنا ہے۔ یہ بات صوفیانہ نقطۂ نظر سے موت پر اور جسمانی موت پر عائد ہوتی ہے۔ پہلی موت کا مقصد یہ ہے کہ دوسری موت احیائے زندگی ہو‘‘۔
دارالرحمت کے فٹ پاتھوں کی شروعات میں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ قدرے کی مقدار میں ہم دونوں کے ساتھ رہے۔ فرید ان دنوں غالباً اسکول کا طالب علم تھا، میرا قیام و طعام ان دونوں کے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کی ہدایت کے مطابق جامع قاسم العلوم کے سپرد تھا۔ پسِ منظر طولانی وجوہات افسانوی ہیں، 47برسوں کی رفاقت کا ایک باب؟ وہ تو خواب سے زندگی کے احیا کی جانب روانہ ہوا، ہم تیار بیٹھے ہیں۔ ہر انسانی نسل کی طرح 1960اور 1970 کی دہائی میں پروان چڑھی نسل کا بھی ذاتی طربیہ اور نوحہ ہے، بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے ان لوگوں میں ہر ایک نے اپنے اپنے طربیوں اور نوحوں کی گٹھڑیاں سروں پر اٹھا رکھی ہیں، ان میں قدرت اللہ چوہدری، حفیظ اللہ خان، ہارون الرشید، حسن نثار، رئوف ملک، اشفاق گوندل، صفدر جاوید سید سمیت وہ سب شامل ہیں جن کے ساتھ فاروق نے اپنے زندگی آمیز اور زندگی آموز شب و روز بتائے، رہ گئے برادر محترم مجیب الرحمٰن شامی، ان کے اندازِ تعلق کی اُٹھان اور گہرائی کا اظہار بھولوں تو یاد کروں، فاروق کیلئے ہے، شاید بہت یہ دل گرفتہ رکھے، پھر صدا آئی ہے:
’’دل ڈُب ڈُب جاوے سجنا تیرے بنا‘‘۔