• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں خواتین کی تعلیم کی صورتحال انتہائی مایوس کن


بلوچستان میں تعلیم کا شعبہ مجموعی طور پر مسائل کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے جبکہ صوبے میں خواتین کی تعلیم کی صورتحال کی تو انتہائی مایوس کن ہے۔

بلوچستان میں تعلیم نسواں کی حالت زار کا اندازہ ہیومین رائٹس واچ کی 2018 کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں خواتین میں شرح تعلیم ملک کے دیگر حصوں کی نسبت سب سے کم ہے۔

مجموعی طور پر 18 فیصد کہی جانے والی تعلیم نسواں کی شرح حقیقت میں صوبے کے دیہی علاقوں میں محض 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

لڑکوں کے تقریباً 10ہزار پرائمری اسکولوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے لیے پرائمری اسکولوں کی تعداد ساڑھے 4 ہزار کے قریب ہے۔

اگر اسکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 42 فیصد پرائمری، 26 فیصد مڈل اور ان میں سے صرف 9 فیصد میٹرک تک تعلیم حاصل کرپاتی ہیں، یعنی پرائمری سے تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے والی 91 فیصد بچیاں میٹرک کے بعد کالج کی سطح کی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔

صوبے میں پرائمری تعلیم تک رسائی ابھی تک 56 فیصد بچوں کو حاصل ہوسکی ہے، جس میں 42 فیصد لڑکیاں ہیں، اس کا مطلب ہے کہ 58 فیصد اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں، جیسے جیسے پرائمری سے اوپر مڈل اور ہائی کی سطح پر جاتے ہیں تو یہ حالت اور ابتر ہوتی جاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ بلوچستان میں تعلیم کا حصول لڑکیوں اور خواتین کی خواہش نہیں، جس کا اندازہ مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والی صوبے کی چند تعلیم یافتہ خواتین سے لگایا جاسکتا ہے۔

صوبے کے بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی آبادی اور وہاں غربت و افلاس، اس پر خواتین کی کم سماجی حیثیت، اس سے جڑے دوسرے مسائل اور سہولیات کے فقدان کا کیا کیا جائے جو بچیوں کی تعلیم میں آڑے آرہے ہیں۔

تازہ ترین