• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے،زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ ہو یاسیاست ،بیوروکریسی ،صحت ،ثقافت،تعلیم ہو یا صحافت ،ان تمام شعبہ جات سے منسلک افراد ایک’ استاد‘ کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مذکورہ شعبہ جات سے وابستہ افراد میں عدل ،توازن اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تو یقیناً یہ درسی اور اخلاقی طور پرتربیت یافتہ اساتذہ کی تربیت کی بدولت ہے اور اگر اساتذہ کی تربیت میںکہیں کوئی نقص کا عنصر درآئے تووہ معاشرہ اخلاقی بدحالی کی تصویر پیش کرتا ہے۔

استاد کو معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کی وجہ سے ہی’’ معمار قوم‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں ،معاشرےکی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں ۔عام طورپر یہ سمجھاجاتا ہے کہ استاد کا کام صرف تعلیم دینا ہوتا ہے ،جبکہ تربیت کرنا والدین کا فرض ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور تربیت دو مختلف چیزیں نہیں، جدید تعلیمی نفسیات نے دونوں کو کچھ اس طور پر یکجا کیا ہے کہ تعلیم بغیر تربیت کے اور تربیت بغیر تعلیم کے اپنا کوئی مقام نہیں رکھتی۔ ہر پیشے کی طرح تدریس میں آنے والے افراد کو بھی بعض خصوصی صفات کا حامل ہونا چاہیے۔ 

پیشہء تدریس میں داخل ہونے والے کو سب سے پہلے اپنی جسمانی و ذہنی سطح کے بارے میں مکمل اطمینان کرلینا چاہیے کہ وہ اوسط سطح سے بلند ہے،لیکن استاد کے پیشے سے وابستہ ہونےکے طریقہ کار یا درسی تربیت کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ استاد کے لیے اپنے مضمون میں یکتا ہونا تو ضروری ہے لیکن طلبہ کی کردار سازی میں استادکا تعاون خال خال ملتا ہے،یقیناً درسی تعلیم کی تربیت کی اہمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اخلاقی تربیت کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔طلبہ کی کردار سازی میں اور شخصیت کے ارتقاء میں استاد کازیادہ دخل ہوتا ہے۔

ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کی کردار سازی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے،لیکن گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ ایک سرکاری اسکول کے ہیڈماسٹر نے اپنے ذاتی کام کے لیے پانچویں کلاس کے دو کم سن طلبہ کواپنی موٹر سائیکل دے کر مارکیٹ بھیجا،بچے راستے میں حادثےکا شکار ہوگئے،موٹر سائیکل کو تیزرفتار ٹرک نے کچل ڈالا،جس کے نتیجے میں 12 سالہ طالب علم ارسلان موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا،جبکہ اس کا 13 سالہ ساتھی محمد سلیم زخمی ہو گیا۔

حادثے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ہیڈماسٹر کومعطل کردیا گیا،لیکن ہیڈ ماسٹر کی غفلت نے ایک گھر کا چراغ گُل کردیا۔ایسے واقعات سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ آیا اساتذہ کو درسی تربیت کے ساتھ ان کے رویوں کی تربیت کی بھی ضرورت ہے ،نیزطلباء کے ساتھ اساتذہ کے رویوں سے متعلق جانچ پڑتال کا کوئی نظام ہے بھی یا نہیں؟اس حوالے سے ہم نے چند ماہرین تعلیم کی آراءشامل کی ہیں۔

قاضی خالد (سابق صوبائی وزیر تعلیم)

ذات کی تعمیر یا ذاتی کام....
قاضی خالد

سابق صوبائی وزیرتعلیم قاضی خالد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’تربیت بہت اہم چیز ہے اور اساتذہ کرام کو بھی اپنی ذمے داریوں کو سمجھنا چاہیے،اپنے منصب اور اپنے مقام کو بھی سمجھنا چاہیے۔کیوں کہ جب تک اساتذہ کو اپنے مقام کو سمجھنے کی آگاہی نہیںہوگی،جب وہ اپنے مرتبے اور ذمے داریوں سے آگاہ ہی نہیں ہوں گے توپھر اپنے فرائض درست طریقے سے ادا نہیں کر سکیں گے، قانون کے مطابق ہر ایک کا اپنے اختیارات پر چیک ہے کوئی بھی قانون سے مبرا نہیں ہے۔

جج ،سرکاری افسر ،منتخب حکمران ،ٹیچریا صحافی ، سب کا اپنا ایک دائرہ اختیار ہے اور آئین اور قانون کے تحت وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے،اگراستاد اپنے طلبہ سے ذاتی کام کروائے، یہ اخلاقی اور قانونی طور پر بھی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے،بلکہ کرپشن ہے۔ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئے چھوٹے سے بڑے ہوگئے کہ مختلف ٹیچرزاپنے طالب علموں سے گھر کے کام کرواتے ہیں،یہ چیزیں معاشرے سےختم ہونی چاہئیں۔ یہ پرائمری، سیکنڈری سطح کا معاملہ نہیں ہے،یہ تو ریسرچ تک کے طلبہ کے لیے مسئلہ ہے۔بہت سے ایسے سپروائزرز ہیںجو ریسرچ میں اسٹوڈنٹس کو سپروژن کے مرحلے پربہت زیادہ پریشان کرتے ہیں اورتوقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے گھر کے کام بھی کریں۔ 

یہ طرزعمل معاشرے میں بہتر تعلیم و تربیت پر منفی اثرات مرتب کرتاہے۔ اس کے تدارک کے لیے حکومت اورتمام اداروں کو بھرپور توجہ دینی چاہیے۔استاد کی تربیت کے لیے حکومت نے باقاعدہ ٹیچرز ٹرینگ انسٹی ٹیوٹ اور کالجز بھی بنائے ہیں اور باقاعدہ میٹرک کے بعد پرائمری اسکول کی ٹیچر کی پی ایس ٹی کی ٹریننگ ہوتی ہے،اسی طرح سے سی ٹی ،بی ٹی ،بی ایڈ ،ایم ایڈ وغیرہ بھی ہیں،دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پرجو اساتذہ کرام ہیں وہ زیادہ تربیت یافتہ ہیں اور مختلف تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں لیکن اس کے مقابلے میں جو پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ ہیں، وہاں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاہم پرائمری اسکول جس کے لیے پی ٹی سی کی ٹریننگ لازمی ہے،لیکن میں نے سندھ میں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو آٹھویں جماعت پاس اور استاد ہیں،ان کے پاس کسی ٹیچرز ٹریننگ کالج یا اسکول کی ڈگری نہیں ہے۔تو پرائیویٹ کو کیا کہیں ،یہاں سرکاری اداروں میں بھی یہی ہے۔

1997۔98میں جب میںوزیر تعلیم تھا، میں نے بہت اعلی سطح پر تجویز دی تھی کہ تعلیمی پالیسی کو بل کی صورت میں اسمبلی سے منظور کرایا جائے۔جس طرح فائنانس بل اسمبلی سے پاس ہوتا ہےاور پھر صدر کی منظوری کے بعد وہ قانون بن جاتا ہے۔اسی طریقے سے جو تعلیمی پالیسی ہے صوبائی اور قومی دونوں کو قانون کی شکل میں اسمبلی میں بحث کے بعد، نافذ کی جائے اور ان تمام باتوں کو اس میں سمو دیا جائے۔ابھی بھی ہماری جو نیشنل ایجوکیشن پالیسی ہےاسے کو قانونی حمایت حاصل نہیں ہے‘‘۔

رفیعہ ملاح،(ماہر تعلیم)

ذات کی تعمیر یا ذاتی کام....
رفیعہ ملاح

ماہر تعلیم رفیعہ ملاح نے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ ’’استاد نہ صرف تعلیم بلکہ طلباء کی زندگی میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے،جس طرح علم استاد کے بغیر ادھورا ہے،بالکل اسی طرح طلبہ کی کردارسازی بھی استاد کی تربیت کے بغیرادھوری ہے۔اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کے دور میں طالب علم کی زندگی کا بڑا حصہ استاد کی تربیت میں گزرتا ہے، یہی سب سے اہم وقت ہوتا ہے،جب بچہ ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں سے متعارف ہوتا ہے۔

ایسے میں استاد ہی ہوتا ہےجو طلبہ کو مثبت رویوں کی طرف راغب کر کے ان کی زندگی بناتا ہے۔ہماری تاریخ ایسے اساتذہ سےبھری پڑی ہے،جو ہمارے طلبہ کے رول ماڈل رہے ہیں۔افلاطون سے ارسطواور امام غزالی سے لے کر پرویز ہود بھائی جیسے بہت اعلیٰ پائے کہ اساتذہ نام پیدا کرچکےہیں،جنہوں نے طلبہ کی تربیت سازی میں بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے۔استاد کا کام محض درسی تعلیم دینا نہیںبلکہ سماجی خوبیوں اور خامیوں سےآگاہی دینابھی ہے اور نوجوانوں کی تربیت اس طرح سے کرنا ہے،جس سے وہ مستقبل میںملکی باگ ڈور سنبھال سکیں اور وقت بہ وقت نئےنئے چیلنجزکا مقابلہ کرنے کی جرات بھی رکھیں۔

سوال یہ نہیں ہے کہ شاگردوں کی تربیت کے لیے نصاب میںمضمون کیوں نہیں شامل،کیوں کہ آپ اور میں اسی نصاب کو پڑھ کرمعاشرے میں کردار ادا کررہے ہیں۔اصل میں نصاب سماجی،دینی،معاشرتی اور سائنسی رویوںکی رو سے تیار کیا جاتا ہے۔نصاب میں بھی ایسے سبق آموزمضامین شامل ہوتے ہیں،جو بچوں کے ذہن میں مثبت سوچ پیدا کرتے ہیں،جبکہ کئی باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں بچوں کے دماغ میں سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں۔

میرے نزدیک بدلتی دنیا یعنی سوشل میڈیاکی بہتات ،بچوں کوگھریلو آزادی، والدین کی عدم توجہ کی وجہ سے بھی بہت سے ایشوز نے جنم لیا،جس وجہ سےحکومت سندھ نے بہت ہی عمدہ تربیت،پرورش،امن،برداشت پر مبنی مؤثر نصاب ترتیب دیا ہے،اس وقت نصاب وقتی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئےہر سال تیار کیا جارہا ہے،جوبچوں کو مستقبل کی تیاری کے ساتھ ساتھ اخلاقی اورمعاشرتی تربیت پر مبنی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ’ اساتذہ کی درسی تربیت‘ پاکستان میں بہت عام ہے۔

ہمارے اساتذہ مختلف یونیورسٹیوںاورانسٹی ٹیوٹس سے سی ٹی،پی ٹی،ایم ایڈ،بی ایڈاور مختلف ڈپلوماکرتے رہتے ہیں۔اساتذہ مختلف مضامین میں ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کرتے ہیں۔یہ سب اساتذہ اپنے علم کو بڑھانے،سمجھنے اور پرکھنے کے لیے کرتے ہیں، تاکہ بچوں کو اس تربیت کا فائدہ پہنچے،لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں بین الاقوامی معیار کے مطابق درسی تربیت جن میں ٹیکنالوجی اور سائنسی طریقے شامل ہیں،متعارف کروانے چاہئیں۔

جس سے استاد کی ٹریننگ اسکلزکی مہارت کے ساتھ سائنسی اور اخلاقی تربیت بھی ہوگی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تربیت میں اخلاقی اور سماجی پہلو پر بھی نظر رکھی جائے تاکہ اساتذہ کی شخصیت مکمل ہوجائے،جو صرف کلاس روم ٹریننگ تک ہی محدود نہ رہے بلکہ کلاس سے باہر بھی ان کی تربیت نظرآئے‘‘۔

پروفیسرڈاکٹر سعیدالدین، (چیئرمین،میٹرک بورڈ،کراچی)

ذات کی تعمیر یا ذاتی کام....
پروفیسرڈاکٹر سعیدالدین

میٹرک بورڈ،کراچی کے چیئرمین پروفیسرڈاکٹر سعیدالدین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ،’’بلاشبہ شاگردوں کے ساتھ اساتذہ کی تربیت کی بھی ضرورت ہے ،جوہماری نسل نو اور سماجی مسائل کی آگاہی کے لیے بھی ضروری ہے،کیوں کہ والدین کی بہ نسبت استاد کی شخصیت سے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔اس لیے اخلاقی طور پر استاد کو بہت اعلیٰ مقام پر ہونا چاہیے۔اس کے علاوہ جو ہمارے معاشرے میں سماجی تبدیلیاں آرہی ہیں،اس حوالے سے خاص کرپرائمری کی سطح پرنصاب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،جیسے ٹریفک قوانین پر عمل کرنا،کچرا سڑکوں پر نہ ڈالنا وغیرہ،یعنی معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے ان کی اخلاقی تربیت ضروری ہے۔

جیسے جاپان میں تیسری جماعت تک روایتی تعلیم نہیں دی جاتی صرف سماجی رویے ہی سکھائے جاتے ہیں۔ایک طریقہ بنایا گیاتھا بی ایڈ اور ایم ایڈ کا،لیکن یہ استاد کی تربیت کے لیے بہت بہتر طریقہ نہیں تھا۔کیوں کہ ڈاکٹر اگر پریکٹس کرتا ہے تو وہ لائسنس لیتا ہے پی ایم ڈی سی سے۔ہمارے ہاں ایک ٹیچر جس نے ،کسی پرائیویٹ اسکول سےمیٹرک یا کالج سےبی اے کیا،اب وہ گریجویشن کے بعد کسی بھی پرائیویٹ اسکول میں پڑھانے لگتا ہے۔اگر اس ٹیچر کے زیر اثر سو یا ڈیڑھ سو بچے آرہے ہیں۔ظاہر ہے وہ اس کی شخصیت سے متاثر ہو رہے ہیں۔

اگر وہ ٹیچر قابل ہے تو بچے اچھے رُخ پہ چلے جائیں گے اور اگر وہ سطحی شخصیت رکھتا ہے یا اس کے پاس علمیت کی کمی ہے تو بچے اس سے اس کی شخصیت کے مطابق اثر لیں گے۔اسی لیے استاد کی استعداد بڑھانا ہوگی۔ایسے واقعات جیسا کہ ایک استاد نے ذاتی کام کروانے کے لیےشاگرد کو اپنی موٹرسائیکل حوالے کر دی اور حادثے میں وہ طالب علم چل بسا ،لیکن ایسا ضروری نہیں کہ ہر استاد کررہا ہو، کچھ غیر ذمے دار لوگ بھی ہوتے ہیں،کوئی اچھا اسکول یا ٹیچر یہ نہیں کہے گا یہ موٹر سائیکل لے کر چلے جاؤ،کیوں کہ بعض اسکولوں میں بہت سختی ہوتی ہے کہ بچہ جب اسکول میں آجاتا ہے تو چھٹی تک باہر نہیں نکل سکتااور ہونا بھی یہی چاہیے۔اب انفرادی طور پر اسکول یا ٹیچر کو ایک سرکلر جانا چاہیےتو یقیناً اس قسم کے واقعات تو رک جائیں گے،جو بہت تکلیف دہ ہیں۔

ساتھ ہی ہم نے کبھی استاد کو اخلاقی اور سماجی سطح پر نہیں پرکھانہ ہی اس کی تربیت کی۔یہ وقت کی ضرورت ہے کہ استاد کو سکھائیں کہ معاشرے کے لیے کام کریں ،ظاہر ہےیہ بچے اچھا شہری بننے کے ساتھ اچھے طالب علم بھی بن جائیں گے۔میرے علم میں تو یہ ہے کہ ٹیچنگ پروگرام صرف’ ٹیچنگ میتھڈالوجی ‘ پر ہی ہوتے ہیں کہ طلبہ کو کس طرح پڑھانا ہے،اسی کے ساتھ بچوں کو ٹریفک قوانین سکھانےیا آلودگی کے مضر اثرات کو نصاب کا حصہ بنا دیں۔جس طرح ہم بچوں سے ذیادتی کے واقعات پر بہت زیادہ بات کرتے ہیں، اس سے بھی زیادہ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے، کہ ہم ماحول ،شجرکاری، ٹریفک قوانین پر بھی اپنے بچوں کوبتائیں، تو مجھے نہیں لگتا کہ ہماری بی ایڈ اور ایم ایڈ ٹرینگ کا یہ حصہ ہے، لہذاکم از کم استادوں کے لیے پندرہ دن کا تو یہ کورس کریش پروگرام کے تحت کرانا ہوگا،کہ پرائمری سطح پر ان بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق انہیں سمجھایا جائے کہ تمہیں کس اسٹیج پر کیا کرنا چاہیے،یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا تعلیمی قابلیت ہوتی ہے۔ٹیچرز لائسنس کے لیےابھی حکومتی سطح پر ایساکوئی کوڈ آف کنڈکٹ بنا تو نہیں ہے۔

سرکاری اسکولوں یا کالجوں کے ٹیچرز صرف حکومت کے ہی پابند ہوتے ہیں کہ اگر انہوں نے بچے کو مارا یا کوئی بھی الزام ہو تو حکومت انہیں معطل کر دے گی،بس یہی ہے۔وکلاءاور ڈاکٹرز کی طرح ٹیچرز کے لیے لائسنس بنانا ایک لمبا کام ہے لیکن ایسی ایک ایجوکیشن اکیڈمی ضرور ہونی چاہیے،کہ جسے اگر استاد بننا ہے تو وہ خود کو اس اکیڈمی میں رجسٹر کروائے،وہ اکیڈمی اسے ایسا کورس دے جو وہ پندرہ دن میں مکمل کر کے اس کا امتحان پاس کر لے، پھر وہ اکیڈمی اسے استاد بننے کے لیے موزوں قرار دے کر لائسنس ایشو کرے کہ یہ استاد پرائمری، سیکنڈری یااعلیٰ سطح پر تعلیم دے سکتا ہے، تاکہ وہ اپنے لائسنس کی بنیاد پر ملازمت کے لیے اپلائی کرے۔اس سے اچھی کیابات ہوگی کہ وہ استاد رجسٹرڈ بھی ہوجائے گا۔یہ چیک اینڈ بیلنس کا اچھا طریقہ ہوگا۔اس طرح تعلیمی اوراخلاقی تربیت یافتہ اساتذہ سامنے آئیں گے۔پرائمری سطح پر زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کیوں کہ بچے زیادہ جلدی سیکھتے ہیں جس سے ان کی عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں‘‘۔

تازہ ترین