• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرتعیش غیرملکی اسامیاں، حکومت کی میرٹ پر صوابدید کو ترجیح

انصار عباسی

اسلام آباد :… پی ٹی آئی حکومت نے دنیا کے 17؍ ممالک میں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی (سی ڈبلیو اے) کے عہدوں پر بھرتی کیلئے انتخابی عمل میں سنگین تبدیلیاں کر دی ہیں اور اب ان پرتعیش غیر ملکی عہدوں پر تقرری کے معاملے میں صوابدیدی اختیار کا استعمال پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہونے لگا ہے۔ 

وزارت افرادی قوت اور اوور سیز پاکستانیز دنیا کے 17؍ دارالحکومتوں میں سی ڈبلیو اے کے تقرر کیلئے گزشتہ 16؍ ماہ سے کوشاں ہے لیکن تاحال ایسا نہیں کیا جا سکا۔ 

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اسلئے تاخیر کا شکار ہے کہ ذلفی بخاری کی زیر قیادت وزارت نون لیگ کی حکومت میں 2016ء میں متعارف کرائی گئی میرٹ کی پالیسی، عہدے کیلئے مطلوبہ معیارات اور حکمران جماعت کے سیاسی رہنمائوں کی ذاتی خواہشات کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ 

یہ سیاسی رہنما مبینہ طور پر یہ پرتعیش عہدے اپنی پسند کے افسران کو دلوانا چاہتے ہیں۔ بعد میں 2016ء کی یہ پالیسی تبدیل کر دی گئی، ذولفی بخاری کی زیر قیادت نیا سلیکشن بورڈ بنایا گیا جس میں صوابدید کے مقابلے میں میرٹ کا وزن کم کر دیا گیا، میرٹ کی بنیاد پر پسندیدہ شہروں میں تعیناتی کیلئے کامیاب امیدواروں کو پوسٹنگ دینے کی شق بھی ختم کر دی گئی اور انتخاب کا ایک نیا طریقہ کار متعارف کرانے کے باوجود اب تک یہ بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ 

اس پورے عمل کے جائز ہونے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ ذلفی بخاری کو اسپیشل سلیکشن بورڈ کا سربراہ بنا دیا گیا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ان کی دہری شہریت کے حوالے سے ایک حلف نامہ جمع کرایا ہے کہ وہ وزیراعظم کے خصوصی معاون ہیں لہٰذا وہ بحیثیت وفاقی وزیر اختیارات استعمال نہیں کریں گے۔ ایسے تمام سلیکشن بورڈز کے سربراہ وفاقی وزراء ہوتے ہیں۔ 

افرادی قوت اور اوور سیز پاکستانیز کی وزارت کے ترجمان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سلیکشن کے عمل میں کی گئی تبدیلیاں میرٹ کو اور غیر ملکی اسٹیشن پر بہترین شخص کو بھیجنے کو یقینی بنانا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ سلیکشن کے عمل میں تبدیلیاں وزیراعظم اور کابینہ نے کی ہیں اور اس پورے عمل میں کوئی چیز غلط نہیں ہے۔ ترجمان نے اس بات کی تردید کی کہ کسی بھی مرحلے پر کسی نے میرٹ کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان عہدوں پر سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی جا سکیں۔ 

انہوں نے کہا کہ حکومت ملک اور اوور سیز پاکستانیز کے مفاد میں درست تقرریاں کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ ترجمان نے افسوس کا اظہار کیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں سی ڈبلیو اے کے عہدے پر بہترین دستیاب افسران کی ضرورت ہوتی ہے لیکن زیادہ تر افسران امریکا یا پھر یورپی ممالک میں جانا چاہتے ہیں۔ 

ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم اور کابینہ کے فیصلے کے بعد ہی ذلفی بخاری اسپیشل سلیکشن بورڈ کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ اگرچہ وزیراعظم عمران خان بھی ہیومن ریسورسز اینڈ اوور سیز پاکستانیز کی وزارت کے وزیر ہیں لیکن انہوں نے سلیکشن کے عمل کی قیادت کا اختیار ذلفی بخاری کو تفویض کیا ہے۔ 

تاہم، ذرائع کا اصرار ہے کہ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو کرائی جانے والی یقین دہانی کے تناظر میں ذلفی بخاری جائز انداز سے بحیثیت وفاقی وزیر اپنے اختیارات اور اتھارٹی استعمال نہیں کر رہے۔ 

ذرائع کا اصرار ہے کہ یہ صورتحال رولز آف بزنس کے بھی خلاف ہے۔ سی ڈبلیو اے کے تقرر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں 2016ء میں منظور کردہ پالیسی میں مختلف شہروں کیلئے منتخب افسران کو مقرر کرنے کا اختیار وزیراعظم اور وزراء سے لے لیا گیا تھا۔ 

اسی پالسیی میں میرٹ کی بنیاد پر تقرر اور میرٹ کی فہرست میں سرفہرست افسران کو ہی پہلے مقرر کرو کی پالیسی اختیار کی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ افسران میرٹ لسٹ میں اپنے نمبر کے لحاظ سے اپنی پسند کے شہر میں تقرر کا انتخاب کر سکتے تھے۔ 

سی ڈبلیو ایز کے انتخاب کا عمل جنوری 2019ء میں ذلفی بخاری کی ہدایت پر شروع کیا گیا تھا۔ سابقہ حکومت نے اس مقصد کیلئے ایک تحریری ٹیسٹ کی پالیسی منظور کی تھی، یہ ٹیسٹ آئی بی اے کراچی نے منعقد کرایا تھا۔ امتحان میں صرف 11؍ افسران پاس ہوئے۔ 

جن افسران نے 65؍ فیصد سے زائد نمبر لیے تھے انہیں انٹرویو کیلئے بلایا گیا تاہم صرف 4؍ ہی پاس ہو سکے۔ ان افسران کو اپنی پسند کے مطابق شہر میں تعینات کرنے کی بجائے عجیب و غریب انداز میں جدہ اور بغداد جیسے شہروں میں مقرر کیا گیا۔ 

جن افسران نے امتحانی مرحلے میں اعلیٰ نمبر لیے انہوں نے یہ پوسٹنگ لینے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ پالیسی کے مطابق انہیں اپنی پسند کے شہروں جیسا کہ لندن، مانچسٹر یا پھر نیویارک میں تعینات کیا جائے۔ 

ذلفی بخاری کی ہدایت پر وزرات نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس پر کچھ افسران نے پوسٹنگ قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ کچھ، جن میں سے ایسے بھی شامل تھے جنہوں نے ٹیسٹ تو پاس کیا تھا لیکن انہیں پوسٹ آفر نہیں کی گئی تھی، نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ 

وزارت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مقدمہ بازی کی وجہ سے سی ڈبلیو ایز کے 7؍ عہدوں پر بھرتی ہونا باقی ہے جبکہ سلیکشن کے ابتدائی مرحلے میں پاس ہونے والے چار افسران نے آفر قبول کر لی ہے اور وہ کسی بھی وقت اپنی نئی ذمہ داری سنبھال لیں گے۔ 

باقی اسامیوں پر سلیکشن کا عمل دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ اب بیرونی ایجنسی (آئی بی اے یا پھر ایل یو ایم ایس) کے ٹیسٹ میں وزن کیلئے نمبر 80؍ سے کم کرکے 60؍ کر دیے گئے ہیں جس سے انٹرویو کے مرحلے میں صوابدید سے کام لیا جائے گا۔ 

اصل پالیسی میں انٹرویو کیلئے کوالیفائی کرنے کیلئے نمبروں کی کم سے کم کوئی حد مقرر نہیں کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت نے انٹرویو کیلئے اہل قرار دینے کیلئے یہ پالیسی تبدیل کرکے نمبروں کی کم از کم حد 50؍ فیصد کر دی ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ لہٰذا، نظری اعتبار سے دیکھیں تو ایل یو ایم ایس یا پھر آئی بی اے کے ٹیسٹ میں زیادہ سے زیادہ نمبر لینے والے کو انٹرویو میں 50؍ فیصد نمبر دے کر مقابلے سے باہر کیا جا سکتا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ انٹرویو پینل میں لوگوں کو دیے گئے اس اختیار کے نتیجے میں میرٹ کے ساتھ کھلواڑ ہوگا تاکہ اپنے من پسند افراد کو لایا جا سکے اور میرٹ پر منتخب ہونے والے افسران کو کھڈے لائن لگایا جا سکے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ انٹرویو میں رکھے گئے 40؍ فیصد نمبر کے تحت من پسند افسر کو کسی بھی پسند کے شہر میں مقرر کرنے کیلئے نمبروں میں ہیرا پھیری کی جا سکتی ہے۔ 

تاہم، وزارت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اب حکومت کامیاب ہونے والے افسر کو حکومت کی پسند کے کسی بھی شہر میں تعینات کر سکتی ہے۔ 

ترجمان نے کہا کہ دوسرے سلیکشن پراسیس کے تحت سی ڈبلیو ایز کا تقرر مستقبل میں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی ڈبلیو ایز کے تقرر کیلئے سمری کی منظوری وزیراعظم اور کابینہ دے گی۔

تازہ ترین