• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی میڈیا کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کے مظالم کے سبب ان دنوں بھارت میں فیض صاحب کی یہ نظم مقبولِ عام ہے

اے خاک نشینو! اُٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائینگے، جب تاج اُچھالے جائینگے

بلاشبہ جہاں جہاں اُردو سمجھی اور بولی جاتی ہے اور وہاں حالات بھی اگر عوام دشمن بن گئے ہوں تو فیض صاحب کی مذکورہ نطم عوام کے خوابیدہ جذبات کو مہمیز دینے کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ جس طرح پاک و ہند کی سرحدیں باہم ملتی ہیں اور جہاں متعدد دیگر قدریں مشترک ہیں وہاں یہ اُردو کے شعرا ہی ہیں جو دونوں جانب یکساں پڑھے اور سُنے جاتے ہیں لہٰذا جب اس نظم سے بھارت میں عوام کو ایک ولولہ تازہ مل سکتا ہے تو اگروطن عزیز کے حالات بھی اس ڈگر پر پہنچ گئے ہوں کہ عوام کیلئے تنگ آمد بجنگ آمد کے ماسوا کوئی اور چارہ ہی نہ ہو تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فیض صاحب کی اس نظم کی مقبولیت کا عالم کیا ہوگا۔

صدرِ مملکت کا کہنا ہے ’’دو سال میں 22لاکھ لوگوں کا بیروزگار ہونا تشویشناک ہے‘‘ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بقول مس مینجمنٹ اور کارٹلائزیشن کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ قومی اسمبلی میں ادارہ شماریات کے حوالے سے کہا گیا کہ ایسی مہنگائی گزشتہ 10سال میں نہیں ہوئی، اسٹیٹ بینک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ 11ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ تاریخ میں ایسا معاشی بحران پیدا نہیں ہوا۔ سرکاری حکام کے مطابق پاور ہائوسز کے بیکار ہو جانے سے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ادائیگیاں کئی گنا بڑھ گئیں جو صارفین کو ہی ادا کرنا پڑیں۔ یعنی نااہلی کا ہر بوجھ عوام پر ڈالنے ہی کو مسائل کا حل سمجھ لیا گیا ہے۔ سینیٹ میں وزیر توانائی نے بتایا کہ اس وقت ملک میں ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 127روپے 26پیسے ہے جبکہ فی لیٹر ڈیزل پر 46روپے 28پیسے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 116روپے 60پیسے ہے جس پر فی لیٹر 35روپے 55پیسے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ اب ظاہر ہے جب اس قدر بھاری ٹیکس لیا جا رہا ہو، بجلی و گیس کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی ہوں، دوائوں سے اشیا خور و نوش یعنی ہر ضروری شے حکومتی کنٹرول سے باہر اور ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز کے کنٹرول میں ہو، وہاں کیونکر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام مطمئن ہوکر زیادہ دیر یہ سب ظلم برداشت کرتے رہیں گے۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ حکومت کے اہم کارندوں کو نہ صرف یہ کہ عوامی تکلیف کی پروا نہیں بلکہ اُن کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، جیسے جہانگیر ترین نے کہا کہ چینی مہنگی ہوئی ہے لیکن لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر نہیں ہوئی۔ اگر ایک طرف بےحسی کا یہ عالم ہے تو دوسری طرف مہنگائی ختم کرنے کے اعلانات پر ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ ان سے بھی مافیاز فائدہ اُٹھا لیں گے اور جو رقم مختص ہوگی اس سے زیادہ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام سے وصول کر لیا جائے گا۔ اب جہاں تک حکومت کی جانب سے لنگر خانوں سے 50ہزار پرچون دکانیں کھولنے کی بات ہے تو کون نہیں جانتا کہ یہ دیرپا و مستقل حل نہیں اور پھر ان سے کتنے لوگوں کو فائدہ ہو سکے گا؟ بلکہ اس پر آنے والے انتظامی اخراجات کا اکثر حصہ بھی چند ہاتھوں میں جانے کا امکان ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کو ماہانہ 2ارب سبسڈی دینے اور رمضان میں یوٹیلٹی اسٹورز کو 5ارب روپے الگ سے دینے سے بھی مہنگائی کا نتیجہ خیز خاتمہ ممکن نہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ لمبی قطاریں کاٹنے کے بعد جب کسی کا نمبر آتا تو اکثر اشیا موجود ہی نہیں ہوتی تھیں۔ گویا یہاں بھی کرپشن کا زبردست احتمال موجود ہے۔ چینی کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے گنے کے ریٹ وغیرہ سے متعلق بڑے ملز مالکان کی منطق سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کسان تنظیموں اور ماہرین نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ کس طرح ملز مالکان اربوں روپے کما رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی متعدد وزرا نے رائے دی تھی کہ ریلیف پیکیج دینے کے بجائے بجلی، گیس و پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی جائیں۔ گویا مہنگائی کی اصل وجہ آئی ایم ایف کے ظالمانہ ایجنڈے پر من و عن عمل کرنا، ذخیرہ اندوزی اور شوگر و دیگر مافیاز ہیں، اب اس جانب توجہ کے بجائے نمائشی اقدامات سے بھلا کیونکر مہنگائی ختم کی جا سکے گی! برسرِ زمین حقائق کی روشنی میں چونکہ حکومت ٹھوس عزم و حکمت عملی نہیں رکھتی، اس لیے خدشہ یہ ہے کہ عوام تنگ آکر سڑکوں پر نہ نکل آئیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارت تو بھارت پاکستان میں بھی ہر طرف فیض صاحب کی نظم گونج رہی ہوگی۔

اُٹھے گا انا الحق کا نعرہ، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کریگی خلقِ خدا، جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے...

تازہ ترین