• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فروری کے پہلے ہفتے نارووال جانا پڑا اور حسنِ اتفاق دوسرا ہفتہ ہمیں لاڑکانہ، خیر پور، گمبٹ، شکار پور اور سکھر لے گیا۔ نارووال اور سکھر میں مماثلت یہ ملی کہ سکھر کے خورشید شاہ پابند سلاسل اور نارووال کے احسن اقبال بھی پس دیوارِ زنداں۔ مگر دونوں کے ترقیاتی اقدامات نے ان کی شہرت پر تاحال آنچ نہیں آنے دی اور دونوں ہی الزامات کے باوجود مقبول تر دکھائی دئیے۔ گویا نارووال اور سکھر دانش گاہوں کے انتظام اور اہتمام کے سبب کزن شہر لگے، اور ان کی قیادت کو جہاں ملک بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں یہ اپنے اپنے شہر کے باسیوں کے دلوں میں بھی رہتے ہیں مگر سکھر اس وقت موٹر وے کے سنگ سنگ ہی نہیں خوش قسمتی کی شاہراہ پر بھی ہے، لیکن حالات و سیاسیات نے نارووال سے یہ حق چھین لیا ہے۔ منہ زور ’’احتساب‘‘ سندھ کی ترقی کا ضامن بنتا جارہا ہے، سندھ گورنمنٹ نے ان حالات میں اپر سندھ میں جدید یونیورسٹیوں اور مثالی اسپتالوں کی تعمیر ایک چیلنج سمجھ لیا۔ جہاں تک تھر کی بات ہے وہ اس وقت دنیا کے بہترین صحراؤں میں شامل ہے مگر یہ بات این جی اوز کی طبیعت پر گراں گزرتی ہے کیونکہ کراچی کے ’’جباروں‘‘ سے اسلام آباد کے ’’کلاکاروں‘‘ تک کے پیٹ پر لات پڑتی ہے۔

سندھ کو جو انڈس ہائی وے اور قومی شاہراہ کے سنگ موٹروے کا بھی ساتھ مل گیا، یہ سب سندھ کی ترقی کو چار چاند لگا دے گا، کیونکہ وہاں ذہانت ہے اور مواقع بھی۔ گلوبل ولج کو تقویت ملنے پر یہ اب سندھ کو سوچنا ہے کہ پروپیگنڈا سے کیسے دامن بچانا اور اپنی ثقافت اور تہذیب سے کیسے دامن گیر رہنا ہے۔ شاہراہوں کا سنگم تو کے پی کے میں بھی ہے مگر میدانی اور زرخیز زمینوں کی بدولت سندھ زیادہ استفادہ کرسکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر سندھی قیادت کو جلد از جلد ایک ایسی شاہراہ تعمیر اور لنک بنانا چاہیے جو موٹر ویز اور گوادر کے درمیان سندھ کے شہروں میں ایک ربط ہو، مگر شارٹ کٹ بھی! سکھر، خیر پور، لاڑکانہ اور دادو سے بلوچستان کے خضدار، اواران اور لسبیلہ سے گوادر تک کی یہ سڑک بلوچستان کیلئے بھی نہایت اہم ہوگی اس پر بلوچستان حکومت کو بھی دیر نہیں کرنی چاہئے، دونوں صوبوں کے باہمی مفاد اور مرکزیت کے رنگ کی تقویت کیلئے اسلام آباد کو اپنا بھر پور حصہ ڈالنا چاہئے۔ کچھ ایسا ہی سی پیک کا بھی منصوبہ ہے، وہ اپنی جگہ تاہم سکھر تا گوادر متبادل روٹ دیگر شہروں کی خاطر رد و بدل بھی رکھ سکتا ہے۔ لاڑکانہ کا گرلز کیڈٹ کالج اپنی جگہ ایک منفرد منصوبہ ہے جو مستقبل میں آئی بی اے یونیورسٹی (ایک پرفیکٹ کمیونٹی سنٹر اور انٹر پرنیول شپ کا قابل رشک ماڈل)، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو واسکولر ڈیزیز (نظام اور سہولیات کے تناظر میں امراض قلب کا پاکستان کا بہترین اسپتال) اور گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (لیور ٹرانسپلانٹ کا کامیاب اور جدید ترین اسپتال) کی طرح قومی اثاثہ ہوگا۔ خورشید شاہ سپورٹس کمپلیکس سکھر بھی ایک قابلِ ستائش پروجیکٹ ہے جو تکمیل کیلئے محتاجِ توجہ ہے۔ اس کی افادیت، خصوصیت اور بین الاقوامیت کو بھی ان سڑکوں کے نیٹ ورک سے ایک تقویت ملے گی، یوں پاکستانی خوشنما رنگوں، فیڈریشن کے سحرانگیز تبسم اور صنعت و تجارت، زراعت و پیداوار کا جادو بھی سر چڑھ کر بولے گا۔

نارووال کا نیشنل سپورٹس سٹی بھی پیپلزپارٹی کا منظور کردہ تھا، 2009 میں احسن اقبال نے تگ و دو کے بعد وزیراعظم گیلانی سے یہ منصوبہ لیا۔ شوقِ احتساب پورا کیا جائے تو نارووال انجینئرنگ یونیورسٹی اور سپورٹس کمپلیکس مکمل کرنے ضروری ہیں بصورت دیگر یہ کھنڈرات بن جائیں گے۔

راقم نے سندھ کے لئے رخت سفر باندھا تو چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری نے بتایا کہ وہ بھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ، آئی بی اے یونیورسٹی سکھر اور بے نظیر آباد (نواب شاہ) کی یونیورسٹیاں، جن میں شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی، پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار وومن اور قائد عوام یونیورسٹی آف انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شامل ہیں، ہر وہ ادارہ خوش تھا جہاں ڈاکٹر بنوری گئے، اور چیئرمین ایچ ای سی کی بات سے بھی یہی تاثر ابھرا کہ انہیں بھی ان یونیورسٹیوں کا کام اچھا لگا۔ یہ آنا جانا لگا رہنا چاہیے، سندھ والوں کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان بھر کے وائس چانسلرز اور ماہرین تعلیم کو مدعو کرتے رہیں۔ دیکھتے ہیں تعلیم کے نئے وزیر سعید غنی اس حوالے سے کیا کرتے ہیں، ان کی لیڈری کا امیج بہرحال ملک بھر میں ہے یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے تاہم ہمارے حسن ظن کے ماتھے پر کچھ دوست کلنک کا ٹیکہ یہ لگاتے ہیں کہ ٹھٹھہ کے کچھ کالجز کی حالت نازک ہے، رپورٹ یہ بھی ہے کہ تھر ایریا کے اسکول کے طلبہ فرفر انگریزی بولتے نہیں تھکتے۔ مگر راقم تھرپارکر ، عمر کوٹ اور میر پور خاص دیکھنے کے بعد ہی رائے بنائے گا، بلاشبہ سندھ کے کئی اسپتال اور یونیورسٹیاں لاجواب ہیں۔ منفی تشریحات ہم بھی ماننے سے رہے۔ ہم تو کہتے ہیں سب صوبوں کو رب العزت اڈاکٹر ندیم قمر، ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی اور ڈاکٹر انیلہ اے رحمان عنایت کردے۔ ہاں! پیپلزپارٹی اپنے دیگر صوبوں کے سیاستدانوں کو اپر سندھ کی ترقی ضرور دکھائے، ان میں سے کچھ میڈیا پر بیٹھ کر سندھ کے دفاع میں گگھو گھوڑے ہیں۔ جو تشریحات اور ترجیحات سے قاصر ہے وہ سیاستدان ہی کیا ہوا ؟ حکومت ہو یا اپوزیشن اگر تشریحات کے سچ اور ترجیحات کے اخلاص کی الائنمنٹ نہیں،تو یہ ملک و ملت کا نقصان بے شک احتساب کا ڈھول چوبارے ہی چڑھ کر کیوں نہ پیٹا جائے!

تازہ ترین