اسلام آباد ( رانا مسعود حسین )عدالت عظمیٰ نے ’’جنرل ریٹائرڈپرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے‘‘ سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اپیل کنندہ وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کے حوالے سے عدالت میں اب بھی کوئی ٹھوس،آزاد یا خود مختار موقف اختیار نہیں کیا ہے، سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مختلف مواقع پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا وفا قی حکومت جنرل پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل رکھنا چا ہتی ہے یا نہیں تو ان کے پاس وفا قی حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی خاص ہدایات ہی موجود نہیں تھیں ،اٹارنی جنرل کا صرف ایک ہی مو قف تھا کہ وزارت دا خلہ نے پرویز مشرف کا نام سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ای سی ایل میں شامل کیا ہے ،جبکہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق وزارت داخلہ کا خط عدالت کے احکامات سے تین روز پہلے ہی جا ری کر دیا گیا تھا، جس میں سندھ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے احکامات کا ذکرتک نہیں کیا گیا تھا،جمعہ کو جاری کیا گیا 14صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ فاضل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے تحریر کیا ہے ، فیصلے میں فاضل چیف جسٹس نے بیان کیا ہے کہ 21اپریل2014کو پرویز مشرف نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی ،جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اقدام روز اول سے ہی غیر آئینی و غیر قانونی اوربلا جواز ہے ،جس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہے ،اس لئے انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک آزادی سے سفر کرنے کی اجازت دی جائے ، ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اقدام آئین کے آرٹیکل 3,4,9,10a,14,15 سے متصادم ہے ، کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ وزارت داخلہ نے5اپریل 2013کو سندھ ہائی کورٹ میں 29مارچ 2013 کوکیس کی سماعت کے دوران دی گئی آبزرویشنز اور سپریم کورٹ کی 8اپریل2013کی ڈائریکشن کی روشنی میں پرویز مشرف کانام ای سی ایل میںشامل کیا ہے اور جب تک سپریم کورٹ اپنا سابق حکم واپس نہ لے ان کانام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا، تاہم سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حتمی فیصلے میں اس عبوری حکم کا تو ذکر ہی نہیں کیا ہے جس کا حکومت حوالہ دے رہی ہے ،اگر کسی کیس کے حتمی فیصلے میں عبوری حکم کو تحفظ نہ دیا جائے تو اس کی حیثیت خو د بخود ختم ہو جاتی ہے ، فاضل چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کے دلائل سنے ہیں، جس میں ان کا ایک ہی موقف رہا ہے کہ وزارت داخلہ نے پرویز مشرف کا نام 5اپریل 2013کو سپریم کورٹ کی 8اپریل 2013کی ہدایات کی روشنی میں ڈالا ہے ،اور یہ حکم سپریم کورٹ کے 3جولائی 2013کے حتمی فیصلے کے باوجود موجود ہے ،تاہم پر ویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے ان کے دلائل رد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے 3جولائی 2013کے حتمی فیصلے میں اپنے 8اپریل 2013 کے فیصلے کو تحفظ نہیں دیا ہے اس لئے اس کی کوئی قانونی و آئینی حیثیت نہیں ہے ، اس لئے وفاقی حکومت کی اپیل خارج کی جائے ، فاضل چیف جسٹس نے مزید لکھا ہے کہ اٹارنی جنرل کا یہ موقف کہ پرویز مشرف کا نام عدالت کی 5اپریل 2013 کی ہدایات کی روشنی میں ڈالاتھا اور اب اسے عدالت ہی واپس لے سکتی ہے، درست نہیں ہے کیونکہ پرویزمشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا لیٹر تو اس حکم سے 3روز قبل جاری ہوا تھا ،اس وقت ملزم پرویز مشرف مختلف فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اور عدالتیں ا س کے معاملات کو ریگو لیٹ کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہیں ، اپیل کی سماعت کے دوران عدالت نے کئی بار اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ’’کیا وفاقی حکومت کسی مضبوط قانونی جواز کی بنیاد پرپرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں رکھنا چاہتی ہے یا نہیں ؟ تو وہ اس حوالے سے حکومت سے کو ئی واضح ہدایات نہ لے سکے ،اور انہوںنے اس موقف کے علاوہ کوئی موقف بھی پیش نہیں کیا کہ پرویز مشرف کانام صرف اور صرف سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے ،اس کے علاوہ انہوں نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں رکھنے کی کوئی وجہ ہی بیان نہیں کی ہے ،عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل کی روشنی میں وزارت داخلہ کے سیکشن افسر کے دستخطوں سے جاری 5 اپریل 2013کے خط کا جائزہ لیا تو اس پر لکھا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا نام ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول ) آرڈیننس 1981کی دفعہ 2کے تحت فہرست میں ڈالا جائے ،اور تمام متعلقہ حکام فوری ایکشن لیں، اس لیٹر میں سندھ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے احکامات کا ذکرتک نہیں کیا گیا تھا، فاضل عدالت نے مزید لکھا ہے کہ یہ خط سپریم کورٹ کے Ad-interum (عارضی حکم) سے تین روز قبل 5 اپریل کو2013 کوجاری ہوا تھا، جبکہ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں دلائل کے دوران سندھ ہائی کورٹ کی آبزرویشنز کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا ہے ، اس لئے عدالت کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ سپر یم کورٹ کے 3جولائی 2013کے حتمی فیصلے میں فاضل عدالت نے اپنے سابق عبوری حکم کو کوئی تحفظ نہیں دیا ہے ،اس لئے وہ عبوری حکم اپنا اثر کھو بیٹھا ہے ، عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 15کے تحت آزادی نقل وحرکت شہریوں کا بنیادی حق ہے ، جس کی ضمانت آئین نے دے رکھی ہے ،ملک کے کسی شہری پر بھی ماسوائے کسی قانونی وجہ کے محض پسند و ناپسند کی بنیاد پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے جبکہ اسی آئین کا آرٹیکل 4ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرنے کی ضمانت دیتا ہے جبکہ کسی شہری کا نام بھی ای سی ایل میںڈالنے کے حوالے سے میکنزم(طریقہ کار) موجود ہے ،جے برو ئے کار لاکر اس کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے ، ملزم پرویز مشرف کے خلاف اس وقت مختلف عدالتوں میں مختلف نوعیت کے متعدد فوجداری مقدمات زیر سماعت ہیں لیکن اس کے باوجود اس حوالے سے وفاقی حکومت کا کوئی موقف ہی عدالت کے سامنے نہیں لایا گیاہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کا 8اپریل 2013کا حکم عارضی نوعیت کا تھا جوکہ سپریم کورٹ کے 3جولائی 2013کے حکم میں ضم ہو کر اپنی حیثیت اور اثر کھو چکا ہے ،اس حکم کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کا فیصلہ درست ہے اور اس نے پرویز مشرف کو معقول وجوہات کی بنا پر داد رسی دی ہے ،وزارت داخلہ کے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے میمورنڈم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے اس معاملہ کی حساسیت اور اس کے سیاسی پہلوئو ں کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اس حکم پر عملدرآمد پر 15روز کی پابندی عائد کردی تھی ،تاکہ وفاقی حکومت اور دیگر فریقین چاہیں تو اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرسکیں، فاضل جج نے مزید لکھا ہے کہ وفاقی حکومت نے اپیل کی سماعت کے دوران اب بھی کوئی ٹھوس ،آزاد یا خود مختار موقف اختیار نہیں کیا ہے، انہی بنیادو ں پر عدالت نے 16مارچ 2016کو وفاقی حکومت کی اپیل خارج کی تھی ،تاہم عدالت نے اپنے مختصر فیصلہ میں لکھا تھا کہ یہ فیصلہ وفاقی حکومت یا سنگین غداری کیس کی سماعت کے لئے قائم عدالت کی جانب سے ملزم پرویز مشرف کے خلاف کسی بھی قسم کا حکم جاری کرنے ،اسے حراست میں لینے یا اس کی نقل و حرکت پر پابندی لگانے کے راستے میں حائل نہیں ہوگا ، عدالت نے متفرق درخواستیں غیر موثر ہونے کی بنیاد پر جبکہ ایک درخواست کے وکیل کی جانب سے پریس نہ کرنے کی بنیاد پر خارج کی ہیں،یاد رہے کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس میاں ثاقب نثار،جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس اقبال حمید الرحمن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے 16 مارچ 2016کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل اور پرویز مشرف کی متفرق درخواست کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا تھا ،کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اور پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم پیش ہوئے تھے، فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھاکہ اصول انضمام( Principal Of Murger) کے تحت وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک عبوری حکم کی روشنی میں ان کے موکل کا نام ای سی ایل میں ڈالا تھا ،لیکن بعد میں جب حتمی فیصلہ آیا تو اس میںاس عبوری حکم کا ذکر نہیں تھا ، اس لئے وہ حکم خو د بخود کالعدم ہوگیا تھا ،اس لئے ان کے موکل کانام اس عدالتی فیصلے کی آڑ میں ای سی ایل میں رکھنا خلاف قانون ہے ،ان کا حق ہے کہ وہ جہاں مرضی آئیں جائیں ، جبکہ اس وقت وہ بیمار بھی ہیں اور ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی ہے،علاج نہ ہوا تو فالج کا اندیشہ ہے ،انہیں علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے سے روکنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، اس حوالے سے انہوں نے متعدد عدالتی نظائر بھی پیش کیں، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا تھاکہ وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کا نام 8 اپریل 2013ء کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں ای سی ایل میں ڈالا تھا اوراس وقت خصوصی عدالت میں ان کا ٹرائل بھی عدالتی حکم پر ہی ہورہاہے،جب تک سپریم کورٹ کافیصلہ موجود ہے اور فاضل عدالت اسے ختم یااس میں ترمیم نہیں کرتی ،ملزم کا نام ای سی ایل سے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے،سندھ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا،اگر حکومت سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ کے تحت ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالتی ہے تو یہ توہین عدالت ہوگی ، کیونکہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے ، فاضل چیف جسٹس نے کہا تھاکہ سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم کے تحت ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی ہدایت کی تھی لیکن جب مقدمہ ختم ہوا تووہ عبوری آرڈر بھی ختم ہوگیا اور سپریم کورٹ نے حتمی فیصلے میں عبوری حکم کو تحفظ نہیں دیا تھا ،ا س طرح ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم موجود ہی نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے کہا تھاکہ ہماری سمجھ کے مطابق ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہے، جو بدستورموثر ہے،جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ جب کوئی کیس سپریم کورٹ میں آتا ہے تو اس میں بے شمار عبوری آرڈر جاری ہوتے ہیں لیکن کیس ختم ہونے پرتمام عبوری آرڈرز بھی ختم ہوجاتے ہیں ، فاضل ججز نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تھاکہ کیا کسی کیس میں حتمی فیصلہ آنے کے بعد وہ عبوری حکم بھی برقرار رہ سکتا ہے، جس کا ذکر اس حتمی فیصلہ میں نہ ہو ؟ تو انہوں نے کہا تھاکہ کچھ عبوری فیصلے ایسے بھی ہوتے ہیں جوکہ حتمی فیصلے کے بعد بھی قائم رہتے ہیں ، جس پربیرسٹر فروغ نسیم نے موقف اختیار کیا تھاکہ کہ اگر اٹارنی جنرل کی اس دلیل کو مان لیا جائے کہ بعض عبوری فیصلے حتمی فیصلہ آنے کے بعد بھی قائم رہتے ہیں تو اس طرح عدالتوں میں غیر ضروری مقدمہ بازی کا ایک نیا راستہ کھل جائے گا ،بعد ازاں فاضل عدالت نے وکیل صفائی کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی اپیل خارج کر تے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا ، جس کے روشنی میں پرویز مشرف کسی بھی ملک میں جانے کے لئے آزاد ہیں ،تاہم فاضل عدالت نے قرار دیا تھاکہ اگر وفاقی حکومت یا سنگین غداری کیس کی سماعت کے لئے قائم خصوصی عدالت کسی قانونی بنیاد پر ملزم کا نام ای سی ایل پر برقرار رکھنا چاہے تو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس کے راستے میں رکاو ٹ کا باعث نہیں بنے گا۔