بیرم بیگ وسطیٰ بد خشاں کے علاقے او غذ تر ک کے قبیلے’’ کارا کیونلو ‘‘میں پیدا ہوا ۔اس کا باپ سیفالی بیگ بہارلو اور دادا جنبالی بیگ با برکی فوج میںخدمت سرانجام دیتے رہے تھے۔بادشاہ ہمایوں نے اسے’’ خان خاناں‘‘ کا لقب دیا تھاجس کے معنی بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، جس کے بعد وہ بیرم خان کے نام سے معروف ہوا۔اس نے 16سال کی عمر میں بابر کی فوج میں شامل ہوکر مغلوں کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ جب شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ہمایوں ایران روانہ ہوا تو بیرم خان بھی اس کےہمراہ تھا۔ہمایوں ایران سے فوج لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو بیرم خان ،ہمایوں کی فوج کا سپہ سالار تھا۔
مغلوں کی تاریخ میں بیرم خان کو اس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ اس نے مغلوں کے اقتدار کو اس وقت بچانے کی کوشش کی تھی جب ان کے قدم اکھڑ گئےتھے اور ہمایوں آگرہ سے فرار ہوگیا تھا۔ اس کو اکبر کے اتالیق ہونے کا اعزازبھی حاصل تھا۔ اکبر بادشاہ کی حکومت کے استحکام میں اس کی خدمات کسی طور بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اکبر کے ڈوبتے ہوئے اقتدار کو دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے محفوظ ہی نہیں رکھا، بلکہ طالع آزمائوں کی یلغار اور مہم جوئی ناکام بنادی۔ عبدالقادر بدایونی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ بیرم خان کا سلسلۂ نسب جہاں شاہ ولد قرا یوسف تک پہنچتا ہے قاضی نور اللہ شوستری مجالس المومنین میں یوں درج کرتے ہیں کہ ’’بیرم خان بن سیف علی بیگ بن ببرک بیگ بن پیر علی بیگ بن علی شکر بیگ‘‘۔
جب شیر شاہ سوری نے ہندوستان پر حملہ کرکے سنہ 946ہجری میں پہلی بار چوسہ کے مقام پر ہمایوں کو شکست دی۔ دوسری بار قنوج کےمقام پر ہمایوں اور اس کے درمیان زبردست معرکہ ہواجس میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔مغل فوج میں انتشار اور سراسیمگی پھیل گئی، وہ میدان چھوڑ کر فرار ہونے لگے۔ یہ صورت حال ہمایوں کے لئے اس قدر پریشان کن تھی کہ وہ خود ہندوستان سے فرار پر مجبور ہوگیا۔ہمایوں چاہتا تھا کہ وہ مختلف علاقوں سے افرادی اور مالی قوت حاصل کرکے دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت حاصل کرے۔ اس ارادے سے اس نے قنوج سے آگرہ اور آگرہ سے لاہور کی راہ لی اور وہاں سے سندھ میں داخل ہوگیا۔ عمر کوٹ کے قیام کے دوران ہمایوں کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ چھوٹا شہرہے اور اس کی فوجوں کی کفالت نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اس نے آگے بڑھنے کا ارادہ کیااور 20شعبان 949ہجری کو وہ جون پہنچا۔ جون ایک مختصر اور شاداب سا قصہ تھاجو بدین سے متصل تھا۔
جون پہنچنے کے بعد ہمایوں کو اندازہ ہوا کہ اس کے پاس موجود سامان ختم ہوتا جارہا ہے۔ اگر اس نے غلہ وغیرہ جمع نہیں کیا تو اس کے لشکری اور ہمراہی قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ اسی دوران اسے اطلاع ملی کہ پٹھوڈا قلعہ میں اناج کا خاصا ذخیرہ موجود ہے جس کو تھوڑی سی مزاحمت کے بعد حاصل کرنا دشوار امر نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے کچھ سرداروں کو پٹھوڑو کے قلعہ کی مہم پر مامور کیا۔ جب سندھ کے حکمراںمیرزا شاہ حسن ارغون کو ہمایوں کے اس ارادے کی خبر ملی تو اس نے اپنی فوج کو ہمایوں سے مقابلہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ جس کے نتیجے میں جون کے گرد و نواح یعنی بدین کے علاقے میں ارغونوں اور مغلوں کے درمیان شدید لڑائیاں ہوئیں۔ ہمایوں کے بہت سے تجربہ کار ساتھی ان لڑائیوں میں مارے گئے۔ ان کے مارے جانے سے ہمایوںاس قدر رنجیدہ اور مایوس ہوا کہ اس نے سندھ کی حدود سے نکل جانے کا ارادہ کرلیا۔
بیرم خان اس وقت گجرات میں تھا، اسے جب اطلاع ملی کہ اس کا آقا ہمایوں سندھ میںپریشان پھررہا ہےتو اس نے فوری طور سے گجرات سے سندھ کی طرف پیش قدمی کی اور 7محرم 950ہجری کو جون پہنچ کر ہمایوں سے آ ملا۔ اس نے ہمایوں سے درخواست کی کہ وہ قندھار سے ہوتے ہوئے عراق چلے۔ ہمایوں نے اس کی یہ تجویز مان لی، کچھ عرصے بعد ہمایوں کو کھویا ہوا اقتدار مل گیا۔ ہمایوں کے انتقال کے وقت اکبر کی عمر صرف چودہ برس تھی،لیکن بیرم خان نے اکبر کے اتالیق کی حیثیت سے اسے مسند اقتدار پر بٹھانے کے فقیدالمثال کردار ادا کیا۔ کہنے کو تو اکبر بادشاہ تھا لیکن پانچ سال تک عملی طور پر بیرم خان ہی حکومت چلاتا رہا ۔ جب اکبر 19برس کا ہوا تو بیرم خان امور مملکت سے الگ ہو گیا۔ بیرم خان نے پانی پت کی دوسری جنگ میں مغل فوج کی قیادت کی ۔یہ لڑائی اکبر اورہیموں کے درمیان نومبر1556ء میں لڑی گئی تھی۔
گرانقدر خدمات اور دیگر اوصاف کے باوجود بیرم خان سے اکبر کے درباری حسد کرتے تھے۔ کچھ مور خین کے نزدیک 1560میں اس کا زوال شروع ہوا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنے قریبی اعزاء کو نوازنا شروع کردیا تھاجس سے اس پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔اس نے گورنر تردی بیگ کو موت کے گھاٹ اتار دیا کیونکہ تردی بیگ ہیموں کے خلاف لڑائی میں دہلی کا دفاع کرنے میں نا کام ہوگیا تھا۔ جب اکبر نے بیرم خان کوسبکدوش کرنے کا فیصلہ کیاتو دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے ۔ اکبر نے اسے جاگیر عطا کردی۔ غیر متوقع طور پر بیرم خان ،اکبر کے خلاف بغاوت کا علَم بلند کرتے ہوئے اس کے خلاف جنگ شروع کردی جس میں اسے شکست ہوئی۔ طویل خدمات اور مغل خاندان سے وفاداری کی بنا پر اکبر نے اسے معاف کر دیا۔
اکبر نے بیرم خان کو پیش کش کی کہ یا تو وہ ریٹائر ہو کر محل میں قیام پذیر ہو جائے یا پھر حج کرنے مکہّ معظمہ چلا جائے۔ بیرم خان نے حج کرنے کو ترجیح دی اور گجرات کے راستہ سے حرمین شریفین جانےکاقصدکیا۔اس نےراستے میں چند دن پٹن میں قیام کیا۔ ایک روز وہ سیر و تفریح کی غرض سے نکلا۔اس علاقہ میں مبارک خان لوحانی بھی موجود تھا۔ اس کا باپ ماچھی وارہ کی جنگ میں بیرم خان کے لشکریوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا۔ وہ بھی چالیس افغانوں کے ہمراہ سیر و تفریح کے لئے نکلا تھا ا مبارک خان نے بیرم خان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، جس کی بیرم خان نے اجازت دے دی۔اس نے بیرم خان کے حضور حاضر ہوتے ہی دھوکہ سے اس کی پشت پر اس زور سے خنجر مارا کہ وہ سینے سے باہر نکل گیا۔ اس کے بعد اس نے اس کے سرپر تلوار کی اس قدر شدید ضرب پہنچائی کہ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔
جب پٹن کے رہنے والوں کی اس واقعہ کی اطلاع ملی توجگہ جگہ آہ و زاری کا شور اٹھا۔ فقرا اور مساکین کے ایک بہت بڑے گروہ نے بیرم خان کی خون آلود لاش اٹھائی اور اسے مقبرۂ شیخ حسام الدین کے احاطہ میں سپر دِ خاک کیا۔ یہ واقعہ 14جمادی الاوّل 968ہجری کا ہے۔میرعلی شیر قانع کے بیان کے مطابق بیرم خان کی لاش پٹن سے دہلی لائی گئی اور اسے امانتاً دفنایا گیا۔ بعد ازاں اس کی وصیت کے مطابق اس کی لاش مشہد بھیجی گئی۔
ماثر رحمی نے لکھا ہے کہ حسین قلی خان جہاں کی کوشش سے اس کی لاش مشہد روانہ کی گئی اور اس کی تدفین وہاںکی گئی۔ بیرم خان ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ اس نے ان دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ اس نے اپنا فارسی دیوان مکمل کرلیا تھا۔ اس کے دربار میں ملک کے تمام مشاہیر اور اہل قلم موجود تھے۔ وہ ان پر انعام و اکرام کی بارشیں کرتا تھا۔