رئیس العلماء شیخ محمد عابد سندھی بن شیخ احمد علی بن شیخ الاسلام محمد مراد بن حافظ محمد یعقوب بن محمود انصاری ۱۱۹۰ھ میں سیوہن (ضلع دادو، سندھ) کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جدِ امجد شیخ الاسلام محمد مراد انصاری اپنے وقت کے مشہور عالم و فاضل تھے۔ انہیں مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی کے تلمیذِ خاص ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ شیخ محمد مراد اہل خانہ کے ہمراہ سیوہن سے حجاز مقدس منتقل ہو گئے اور یمن کے شہر حدیدہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور اسی شہر میں انہوں نے رحلت فرمائی ۔
شیخ محمد عابد سندھی نے ابتدائی تعلیم سیوہن میں حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے چچا شیخ محمد حسین بن محمد مراد سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ ان کی خدمت میں رہ کر درسی نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔ انہیں اپنے چچا سے سندِ حدیث حاصل تھی۔ چچا کی وفات کے بعد یمن کے شہر زبیدہ میں جا کر مقیم ہو گئے، جہاں کئی علماء سے حدیث اور دوسرے علوم کی تحصیل کی۔ پھر حرمین شریفین میں آ کر رہنےلگے اور وہاں بھی تحصیلِ علم کرتے رہے۔ ان علماء میں سید علامہ عبد الرحمن بن سلیمان بن یحیٰ بن عمر امدل، شیخ یوسف بن محمد بن علاء مزجانی، شیخ محمد طاہر سنبل، مفتی عبد الملک القلعی اور شیخ صالح بن محمد عمری فلانی میں شامل ہیں، جو اُس وقت کے بڑے علماء شمار ہوتے تھے۔
آپ نے طب، صرف و نحو، تفسیر، حدیث، فقہ میں مہارت حاصل کی۔ آپ نے تدریس کا آغاز زبیدہ کے شہرسے کیا۔ یمن کے دار السلطنت صنعاء میں بھی درس و تدریس کی مسند پرفائز رہے۔ ایک بار امام صنعاء (یمن) کی جانب سے والیٔ مصر کی جانب سفیر بن کر گئے، دونوں ملکوں کی طرف سے سفارتی تعلقات کو اپنی علمی بصیرت اور ذہنی صلاحیت سے بہتر بنایا۔ شاہ مصر آپ سے بڑی تعظیم سے پیش آئے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ یمن میں گزرا ، اسی وجہ سے مورخین نےآپ کو زبیدہ کے علماء میں شمار کیا ہے۔ یمن میں اس قدر عزت اور مرتبہ کے ہوتے ہوئے بھی شیخ محمد عابد کی طبیعت وہاں نہیں لگتی تھی اور مدینہ منورہ میں سکونت کا شوق ہر وقت دامن گیر رہتا تھا۔
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ شریف میں آ کر مقیم ہوئے۔ جب درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا تو چند حاسدوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اور آپ کی مخالفت میں سب یکجا ہو گئے، آپ پر حملہ کیا جس کے سبب شیخ محمد عابد مجبوراً مدینہ منورہ سے نقل مکانی کر کے پھر حدیدہ (یمن) میں آ کر رہنے لگے لیکن وہاں پر بھی حالات تبدیل ہو چکے تھے۔ وہاں حسین بن علی حازمی قاضی مقرر ہوا تھا جو کہ زیدی شیعہ تھا۔ اس نے حکم دیا کہ صبح کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کی جگہ حیٰ علیٰ خیر العمل کے الفاط کہے جائیں۔
قاضی کے نزدیک الصلوٰۃ خیر من النوم کا کہنا بدعت تھا، اس لیے کہ اس کو خلیفہ حضرت عمرؓ فاروق نے اپنی خلافت کے زمانے میں رائج کیا تھا، مگر عام مسلمانوں نے قاضی کے حکم پر کوئی توجہ نہیں دی، چنانچہ اس پر قاضی کے دل میں یہ گمان پیدا ہوا کہ ان کو روکنے والے حنفی علماء ہیں، جس پر اس نے چالیس حنفی علماء گرفتار کروا کر پابند سلاسل کروادئیے،جن میں شیخ محمد عابد سندھی بھی شامل تھے۔ دوسرے افراد کو قاضی نے آخر میں چھوڑ دیا مگر شیخ محمد عابد کو جسمانی اذیتیں اور بہت سی تکالیف پہنچائیں اور پھر حدیدہ سے نکلوا دیا۔
شیخ محمد عابد سندھی نے حدیدہ میں سکونت کے دوران درگاہ لواری شریف کے سجادہ نشیں خواجہ محمد زمان ثانی سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت کی، اس وقت خواجہ محمد زمان ثانی براستہ حدیدہ حج پر جا رہے تھے، اس کے بعد بھی شیخ محمد عابد اپنے مرشد کی زیارت کے لیے لواری آئے اورکئی دن وہاں قیام کیا تھا۔ لواری سے واپسی کے بعد شیخ محمد عابد مدینہ منورہ جا کر مقیم ہو گئے اور اس بار آپ نے یہاںمستقل سکونت اختیارکرلی۔ یہاں حالات ہر طرف سازگار تھے۔ معتقدین کے حلقہ میں اضافہ ہو چکا تھا۔ آپ اطمینان قلبی کے ساتھ مدینہ منورہ میں درس و تدریس، تحریر و تصنیف، عبادت و ریاضت، ذکر و فکر کے معمولات میں مصروف ہو گئے۔
آپ کے علمی مرتبے کو دیکھتے ہوئے والیٔ مصر نے آپ کو مدینہ منورہ کا رئیس العلما ء کے منصب سے سرفراز کیا۔ عرب و عجم، مشرق تا مغرب کے لاتعداد علماء و مشائخ نے آپ سے استفادہ کیا اور اس صدقۂ جاریہ کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ آپ کے شاگردوں کی فہرست خاصی طویل ہے، ان میں امام مسجد الحرام شیخ حسین بن صالح حنفی، شیخ سید عبد اللہ بن علامہ سید محمد عبد اللہ بخاری مشہور کوجک حنفی مکی (متوفی ۱۲۹۷ھ)، قاضی حسن بن احمد بن عبد اللہ عاکش الضمدی (۱۲۸۹ھ)، علامہ فضل رسول بدایونی قادری، خواجہ ابو سعید مجددی رامپوری (متوفی ۱۲۵۰ھ)،علامہ عبد الغنی رامپوری مجددی ابن ابو سعید (متوفی ۱۲۹۶ھ)، شیخ الاسلام شہاب الدین احمد حنفی حسینی(استنبول)، شیخ جمال بن عبد اللہ مکی حنفی، شیخ داؤدبن سلیمان بغدادی خالدی المعروف بابن جرجیس، شیخ سلیمان بن محمد (خطیب و امام مسجد نبوی)، شیخ صدیق بن عبد الرحمٰن بن عبد اللہ کمال حنفی مکی، مولانا علم الدین بن رفیع الدین عمری قندھاری، مولانا شیخ ابو الفضل عبد الحق بن فضل اللہ عثمانی بنارسی، شیخ عبد الجلیل بن عبد السلام مالکی،مولانا محمد برہان الحق بن محمد نور الحق انصاری لکھنوی، شیخ محمد بن خلیل ابو المحاسن القاونجی (طرابلس)، مولانا محمد حیدر بن ملا محمد مبین انصاری (حیدرآباد دکن)، شیخ حسنین بن حسین علی بن عبد الباسط قنوجی، مولانا ابو علی محمد ارتضیٰ علی خان قاضی نجاری (مدراس)، شیخ داؤد بن عبد الرحمن حجر مقبول الھدل زبیدی، علامہ قاضی ابو الخیر عبد اللہ جتوئی (ٹھٹہ) وغیرہ شامل ہیں۔
شیخ محمد عابد سندھی کثیر التصانیف عالم اور فقیہ تھے۔ آپ کی بعض تصانیف میں طوالع الانوار شرح الدر المختار (8 جلدیں، قلمی)، المواھب اللطیفہ شرح الامام ابی حنیفہ، شرح تیسیر الوصول الیٰ جامع الاصول من احادیث الرسول لابن الربیع الشیبانی، شرح بلوغ المرام لابن حجر عسقلانی، حصر الشارد فی اسانید محمد عابد (2 جلدیں، مطبوعہ)، منحۃ الباری فی جمع مکر رات البخاری، شرح مسند الامم الشافعی (2 ضخیم جلدیں)، رسالہ رد عقائد نجدیہ، کتاب الشمالی و یوم مولدہﷺ بحوالہ البشریٰ لمن اختفل بمیلاد المصطفٰی، رسالۃ فی جواز الاستغاثۃ و التوسل و صدور الخوارق من الاولیاء المقبورین، رسالہ فی تقبیل الصحابۃ ید رسول اللہ و راّسہ الشریف و حکم التقبیل عامۃ، شفاء قلب کل سؤول فی جواز من تسمی بعبد النبی و عبد الرسول، رسالۃ فی کرامات الاولیاء و التصدیق بھا، رسالۃ فی التوسل و انواعہ و احکامہ، جزء فی تراجم مشائخ، کشف الباس عن سید الناس، ترتیب مسند الامام ابی حنیفہ بروایۃ الحصکفی، دیوان عابد السندی، شرح مسند الحارثی، الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ، الکرامۃ و اتقبیل، ترتیب مسند الامام الشافعہ، حواشی السندی علی البیضاوی، نفحات النسیم، مجموعۃ فی اجازات مشائخہ لہ و اسانیدھم نظماً و نثراً قابلَ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی آپ کی چھوٹی بڑی بہت سی تصانیف یادگار ہیں جو مختلف مقامات پر ذاتی و سرکاری لائبریوں میں قلمی صورت میں موجود ہیں۔
شیخ محمد عابد سندھی مدینہ منورہ میں بروز دوشنبہ ۱۹ ربیع الاول ۱۲۵۷ھ بمطاق ۱۰ مئی ۱۸۴۱ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ۔ آپ جنت البقیع میں حضرت عثمانؓ غنی کے مقبرہ کے دروازے سے متصل مدفون ہوئے۔ انہوں نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔