• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں، بچیوں کا انہماک اور ذوق و شوق میرا حوصلہ بڑھا رہا ہے۔ ہر ایک تلفظ لائقِ صد تحسین، اعتماد قابلِ افتخار۔ میں جب بھی پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے شاگردوں کے درمیان ہوتا ہوں تو مستقبل بالکل محفوظ اور روشن نظر آتا ہے کیونکہ یہ انتہائی سچی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ صرف مثبت پہلو بیان کررہے ہوتے ہیں۔ ان کے ارادے، عزائم کتنے امید افزا اور آنے والے دنوں کے لئے کتنی بشارتیں۔

میں اس وقت مدینۃ الحکمت میں ہوں۔ شہرِ دانش۔ ایک سچّے پاکستانی کے خواب کی تعبیر۔ شہیدِ پاکستان کی قربانیوں کا ثمر۔ ایک نیا شہر آباد ہورہا ہے۔ ہمدرد نونہال اسمبلی کا سلسلہ شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید نے 1985میں شروع کیا تھا۔ بنیادی مقصد یہی تھا کہ پاکستان کے مستقبل کی تربیت کی جائے۔ اُنہیں بچپن، لڑکپن سے ہی بخوبی علم ہو کہ ہمیں کن کن مشکلات کا سامنا ہے۔ قومی ترقی کے لئے کونسے راستے اختیار کرنا ہیں۔ پیش رفت میں کون کون رُکاوٹ ڈال رہا ہے۔ ہمدرد یونیورسٹی اِس وقت ملک کی بہترین جامعات میں شُمار کی جاتی ہے۔ معیارِ تعلیم بین الاقوامی درسگاہوں کے برابر ہے۔ ہمدرد پبلک اسکول ہے۔ ایک ہمدرد ویلیج اسکول۔ یونیورسٹی سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ ان کا وژن یہ تھا کہ یہ مادرِ علم دونوں صوبوں کے ذہین طلبہ و طالبات کی پیاس بجھا سکے گی۔ یہاں قدیم جدید دونوں علوم پڑھائے جارہے ہیں۔ لائبریری بھی عالمی معیار کی ہے۔ ویلیج اسکول میں آس پاس کے دیہات کے بچے بچیاں مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مفت تعلیم کا معیار بھی وہی ہے جو فیس دے کر پڑھنے والوں کا۔ یہ ایک بلوچ بیٹی تقریر کررہی ہے۔ کیا رواں اُردو، تلفظ اہلِ زبان والا، دلائل بہت موثر۔

ہمدرد نونہال اسمبلی میں ایک بار پہلے بھی گزشتہ صدی میں حکیم محمد سعید کی زندگی میں شرکت کر چکا ہوں۔ میری تمنّا ہوتی ہے کہ کاش ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینل ان اسمبلیوں کو بھی اسی طرح براہِ راست دکھائیں جیسے وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس دکھاتے ہیں۔ جب بچوں، بچیوں، نوجوان طلبہ و طالبات کی اسمبلیاں دکھائی جائیں گی تو اقبال کا یہ شعر یاد آئے گا:

نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

آفریں ہے ان اساتذہ پر، والدین پر جو ان بچوں بچیوں کو تقریریں تیار کرواتے ہیں۔ ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ان کو الفاظ کی ادائیگی سکھاتے ہیں۔ موضوع ہے۔ ’ہم نونہال، ہم بےمثال‘۔ ہر مقرر پاکستان کے بےمثال بچوں کا حوالہ دے رہا ہے۔ ارفع کریم سب کو یاد آرہی ہے۔ حارث، علی معین نوازش۔ یہاں کی تقریروں سے معلوم ہورہا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں، کمپیوٹر سائنس میں ہمارے بچے کیا کیا کمالات دکھارہے ہیں۔ دُنیا ان کی ذہانت کو تسلیم کررہی ہے۔ مجھے خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے بچوں کے ہیرو یہ ذہین پاکستانی ہیں۔

یہاں تقریر کرنے والوں میں زیادہ تر متوسط اور غریب گھرانوں کی اولادیں ہیں۔ علم کا نور پھیل رہا ہے۔ تربیت کا شعور بیدار ہورہا ہے۔ میں تو ان تقریروں سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔ عام طور پر اسمارٹ فون کی برائی کی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ سے وابستگی پر واویلا کیا جاتا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جادو کی اس ڈبیا جسے موبائل فون کہتے ہیں، میں علم کی ایک کائنات محفوظ ہے۔ ہماری نسل اس آلے کی وجہ سے ہم سے کہیں زیادہ باخبر ہے۔ ہر لمحے اس میں دنیا بھر سے معلومات آرہی ہیں۔ اب یہ والدین اور اساتذہ پر منحصر ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو کس راہ پر چلاتے ہیں۔ اس انٹرنیٹ میں بہت سی لائبریریاں سموئی ہوئی ہیں۔ آپ کو اپنی مطلوبہ تحقیق کے لئے زیادہ وقت صَرف نہیں کرنا پڑتا۔

یہ بچوں کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ میری عرضداشت کے اہم جملوں پر تالیاں بھی بج رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں وہ چمک دیکھ رہا ہوں جس کی مجھے اپنے ہم عصروں کی آنکھوں میں دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے۔ بڑوں کی محفلوں میں میرے کئی جملے سروں سے گزر جاتے ہیں لیکن یہاں اچھی باتوں پر خوب داد مل رہی ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو نسلیں زیر تعلیم ہیں یہ دراصل میٹھا پانی ہیں۔ جو اساتذہ تیار کررہے ہیں۔ میٹھا پانی ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ منافقت، نااہلی اور عدم تربیت کے باعث کھارے پانی کا سمندر بنا ہوا ہے۔ ہماری ضرورت ہے کہ ہم میٹھے پانی کے لئے الگ راستے بنائیں، الگ نہریں نکالیں۔ میٹھے پانی کے ان دریائوں کے لئے الگ راستے بنائیں۔ کوئی ادارہ ہو۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ ساتھ پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن بھی ضروری ہیں۔ اس میٹھے پانی سے ہم پوری قوم کو سیراب کرکے ایسی فصلیں کاشت کر سکتے ہیں جو ہمارے مستقبل کو محفوظ اور روشن بناسکیں۔ حکیم محمد سعید ایک بڑی میراث چھوڑ گئے ہیں۔ جنہیں ان کی سعادت مند صاحبزادی سعدیہ راشد سنبھال سنبھال کر آگے لے جارہی ہیں۔ ان کی بیٹی آمنہ کہتی ہے کہ میں امریکہ چھوڑ کر پاکستان واپس آگئی ہوں۔ وہ نانا کی میراث کو پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے استعمال کریں گی۔ ایک سچّے پاکستانی کا ورثہ ہے پاکستان سے محبت، پاکستان کی خدمت۔ میں جب بچوں بچیوں سے خطاب کررہا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ شہید پاکستان حکیم محمد سعید آسمانوں سے ستاروں کی اوٹ سے اس اسمبلی کو دیکھ رہے ہوں گے۔ ان کی روح یقیناً خوش ہورہی ہوگی کہ انہوں نے جس مشن کا آغاز کیا تھا وہ جاری و ساری ہے۔

اسمبلی کا اختتام دعائے سعید پر ہورہا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ سے پاکستان کے آگے بڑھنے، پاکستانیوں کی کامیابی کی التجا کی گئی ہے۔ اور سلیم مغل کا حکیم محمد سعید کے لئے لکھا گیا نغمہ بھی بچوں نے اتنے پیار سے گایا کہ ہر مصرع پر تالیاں بجائی جارہی ہیں۔ میں تو اس تقریب سے جو کچھ سیکھ رہا ہوں آپ تک پہنچارہا ہوں۔ ان بچوں بچیوں میں آپ میں سے بہت سوں کے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بھی ہوں گے۔ آپ کو بھی مبارک ہو۔ آپ کا بھی شکریہ کہ آپ اپنے مستقبل کی تربیت کررہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین