• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

90کی دہائی میں انٹرنیٹ کے متعارف ہوتے ہی گلوبل ولیج کا تصور سامنے آیا۔ عالمی مارکیٹ کا تصور اجاگر ہوا اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی ہنر مند افرادی قوت کو ملازمت کے نئے مواقع میسر آئے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا انقلاب نے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک عوام کو گھر بیٹھے جاننے اور انفرادی تجربات کاموقع دیا۔ یہیں سے معیار اور تحقیق پر مبنی بین الاقوامی تعلیم کا رجحان پروان چڑھا ۔

معیاری و تحقیقی تعلیم کیا ہے؟

ذہنی نشوونما کا یہ ایک ایسا تدریسی پروگرام ہے، جس میں مختلف شعبوں کے ذریعے تفہیم کی بنیاد پر مقامی مسائل کو عالمی نقطہ نظر سے حل کیا جاتا ہے۔ اس میں مختلف ممالک کی حکومتوں، اساتذہ اور این جی اوز کا تعاون و اشتراک شامل ہے۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ اب پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور بزنس اسکولز بھی ’’آن لائن پورٹل‘‘ سے جڑ گئے ہیں۔ 

ملک کی کئی جامعات نےڈیجیٹل لائبریریز اور تحقیقی مراکز کو ہولوگراف اور ورچوئل ریئلٹی کے ذریعے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تعلیمی درسگاہوں اور تحقیقی مراکز سے منسلک کرکے خود کو معیار و تحقیق پر مبنی بین الاقوامی تعلیم سے جوڑ لیا ہے۔ بین الاقوامی اداروں سے روابط نے اس وقت پاکستان کے سائنسدانوں کو بین الاقوامی تحقیق اور تعلیم کے میدان میں خود کفیل بنا دیا ہے۔ پاکستان بھی سائبر اسکولز میں اہم جگہ بنا رہا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ گوگل اور انٹیل کے بین الاقوامی سائنس فیئرز میں ہمارے پاکستانی طالب علم نمایاں پوزیشن حاصل کررہے ہیں۔ تعلیم میں ہونے والے اس خاموش انقلاب کی بازگشت ہر سال فوربس جیسے بین الاقوامی جرائد میں بھی سنائی دیتی ہے۔

بین الاقوامی ذہانت اورمعیاری تحقیقی تعلیم

ہمارے طلبا و طالبات کو مستقبل میں ملازمت کی بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کے لیےبہترین تعلیم کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے پالیسی سازوں، اساتذہ کرام، والدین ​​اور طلبا و طالبات کے مابین اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے معیاری تحقیقی تعلیم کو عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ عوامی و اشرافیہ کی تعلیم کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہوگا۔یکساں نظامِ تعلیم کے لیے مدارس اور جدید تعلیمی اداروں کے درمیان ’میثاقِ تعلیم‘ کرنا ہوگا۔

معیاری و تحقیقی تعلیم کے اجزاء

اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماہربین الاقوامی تعلیم پروفیسر میری فیلڈ نے پانچ سال سے زائد عرصے کے دوران ہانگ کانگ، جاپان اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے کلاس رومز میں بین الاقوامی تعلیم کے بنیادی عناصر کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے مؤثر تعلیم کے پانچ اجزاء کی نشاندہی کی ہے۔

٭ سب سے پہلے بین الاقوامی باہمی روابط کا علم آتا ہے۔ اس نصاب میںطلبا یہ جانتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی واقعات اور سرگرمیوں سے کس طرح جڑے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی تعلیم انھیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ دوسری اقوام کی تحقیق کن مراحل پر ہے اور ہم معیار وتحقیق کو کیسے بلند کرسکتے ہیں۔

٭ دوسرا جزو بین الاقوامی مسائل کی تحقیق (انکوائری) ہے، جس میں اساتذہ کرہ ارض کو درپیش آلودگی و گرمائش،بڑے پیمانے پرفطری تباہی ، عالمی صحت، ایچ آئی وی / ایڈز ، دہشت گردی، انسانی حقوق، غربت اور ترقی جیسے موضوعات کو نصاب کا لازمی حصہ بناکر یہ شعور بیدار کرتے ہیں کہ دھرتی ماں کے دکھ ساجھے ہیں۔ یہ مسائل پوری دنیا کے لوگوں کو درپیش ہیں اور ان کی زندگیوں کو متاثر کررہے ہیں۔

٭ تیسرا جزوعالمگیریت ہے، جوعالمی تناظر کو فروغ دینے میں ممد و معاون ہے۔ اس سےطلبا کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہم ہی سب کچھ نہیں، ہمیں دوسروں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ یہ نصاب طلبا میں ثقافتی اقدار کا شعور اجاگر کرکے انھیں عملی طور پر قائل کردیتا ہے کہ رب العالمین کی اس دنیا میں کوئی بھیدبھاؤ نہیں۔ انتظامی سہولت کے لیے تو سرحدیں بنائی جاسکتی ہیں لیکن دنیا بھر کے انسانوں کے اسبابِ معاش ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔

٭ بین الاقوامی تعلیم کا چوتھا ستون کھلی ذہنیت ہے جو ایک دوسرے کی ثقافتی اقدار کے احترام پر مبنی ہے۔ مختلف ثقافتوں کے رنگوں سے متعارف ہونے کے بعد اختلافات میں کمی اور برداشت و تحمل بڑھتا ہے۔ یہ جزو طالب علموں کو تعصب پسندی اور دقیانوسی تصورات سے نجات دلاکر فراخ دل بناتا ہے۔ساتھ ہی وہ غلط اور صحیح معلومات میں بھی امتیاز کرسکتے ہیں۔

٭ پانچواں جزو مختلف ثقافتی تجربات ہیں جن سے طلبا کو براہ راست لوگوں سے رابطے کا موقع ملتا ہے۔ وہ نہ صرف مختلف زبانوں اور رسم و رواج سے متعارف ہوتے ہیں بلکہ انھیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جنھیں وہ معیوب جانتے ہیں وہ دوسری ثقافتوں میں ناپسندیدہ نہیں یا جنھیں وہ پسندیدہ مانتے تھے، وہ دوسروں کے لیے معیوب ہیں۔ ورچوئل رابطوں، ویڈیوز، تصاویر اور کتب سے طالب علموں کا آفاقی ذہن بیدار ہوتا ہے اور انھیں ادراک ہوجاتا ہے کہ علم مومن کی گم شدہ میراث ہے،جہاں سے ملے حاصل کرلے۔

تازہ ترین