• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں نمایاں طور پر شائع اور نشر کی جا رہی ہیں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ایک معاہدہ ہونے جا رہا ہے، جس پر 29فروری 2020ء کو دستخط ہونے کی امید ہے۔

سب سے بڑی حریف تصور کی جانے والی دو بڑی طاقتیں روس اور چین سمیت ساری دنیا اس مجوزہ معاہدے کی خبروں کا خیر مقدم کر رہی ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو کیا افغانستان اور اس خطے میں امن قائم ہو جائے گا؟

یہ امریکہ اور اسکے عالمی اتحادیوں سے زیادہ ہمارے لئے اہم سوال ہے کیونکہ ہم نے چار عشروں سے زیادہ اس بدامنی کے عذاب کو بھگتا ہے۔ افغان قوم کے ساتھ ساتھ ہم بھی برباد ہوئے ہیں اور اب تک اپنے پُرامن اور خوشحال مستقبل کیلئے بےیقینی کا شکار ہیں۔

آج کی نوجوان نسل کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اس خطے میں بدامنی کے اصل محرکات کیا ہیں، جو افغانوں کے ساتھ ساتھ ہماری تباہی اور بربادی کا سبب بنے۔

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف، کیا امریکہ طالبان مجوزہ معاہدے سے امن قائم ہو جائے گا اور افغانستان، پاکستان اور اس خطے کے دیگر ممالک اس گریٹ گیم کی تباہی سے نکل پائیں گے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ہمیں بہت پیچیدہ معاملات میں الجھنا ہوگا۔

اس مختصر کالم میں عالمگیر سطح پر تسلیم کیے جانے والے چند حقائق اور ان سے ابھرنے والی تصویر کا تذکرہ شاید مناسب ہوگا۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان اور اس خطے میں موجودگی 2001سے نہیں بلکہ 1979سے ہے، جب سوویت یونین افغانستان میں سردار محمد داؤد خان کی حکومت کا تختہ الٹ کر خلق اور پرچم پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور افغانستان میں ایک سوشلسٹ اور ترقی پسند سیاسی جماعت نے اقتدار پر قبضہ کیا۔

اس کی مخالفت کیلئے مجاہدین کو میدان میں اتارا گیا۔ 1985کے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا اور مجاہدین نے طالبان کی شکل میں افغانستان پر حکومت کی تو امریکہ کا اس خطے میں اپنی عسکری موجودگی کا جواز نہیں تھا۔ سوویت یونین مخالف مجاہدین اچانک طالبان بن گئے اور وہ امریکہ کے مخالف ہو گئے۔ دوسری حقیقت یہ مفروضہ ہے کہ امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کے دشمن اور حریف ہیں۔

تیسری حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کی اتحادی نیٹو افواج کی موجودگی میں 2001میں طالبان کی حکومت کو نیٹو افواج نے ختم کیا لیکن طالبان کی طاقت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔

چوتھی حقیقت یہ ہے کہ طالبان کی طاقت بڑھنے کے باوجود افغانستان میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت قائم ہوئی۔ پانچویں حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے خلاف حقیقی لڑائی افغانستان کے شمالی اتحاد، روس، چین اور ایران نے لڑی اور اس لڑائی میں امریکہ نے ساتھ نہیں دیا۔ چھٹی حقیقت یہ ہے کہ روس، چین اور ایران طالبان کے الگ گروہوں کے ساتھ امن مذاکرات کر رہے ہیں اور امریکہ طالبان کے دوسرے گروہوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ کن گروہوں کے ساتھ افغانستان اور خطے میں امن قائم ہو گا، یہ کوئی نہیں جانتا۔

ساتویں حقیقت یہ ہے کہ طالبان ایک ایسا فیکٹر ہیں، جنہیں دنیا کی متحارب طاقتیں اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ وہ لڑائی میں ایک فریق نہیں بلکہ فریقین کے مفادات کے حصول کا ذریعہ ہیں۔

آٹھویں حقیقت خود امریکیوں نے بیان کر دی ہے کہ وہ طالبان سے امن معاہدہ کرکے دیگر انتہا پسند تنظیموں خصوصاً ’’داعش‘‘ سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کا فیکٹر ختم ہو چکا ہے اور داعش کا نیا فیکٹر اس خطے میں داخل ہو رہا ہے۔ نویں حقیقت یہ ہے کہ روس یہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے نام نہاد امن معاہدے سے وقتی طور پر افغانستان میں جو سیاسی خلا پیدا ہو، اسے روس پُر کرے۔

اس لیے روس صدر اشرف غنی کی اپوزیشن کی حمایت کر رہا ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی امریکی افواج کے افغانستان کے انخلا کی مخالفت کر رہے ہیں۔ حقائق اور بھی ہیں لیکن گنجائش کم ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں سوالات بھی بےشمار ہیں لیکن ایک ہی سوال کافی ہے کہ کیا امریکہ طالبان مذاکرات کے بعد کہیں داعش سے نمٹنے کیلئے اپنی فوجی موجودگی کو اس خطے میں مزید تو نہیں بڑھائے گا کیونکہ چین کے ون بیلٹ اینڈ ون روڈ اور سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے یہ ضروری ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی اور بدامنی سے جن قوتوں کے مخصوص مفادات وابستہ ہیں، کیا وہ طالبان سے نام نہاد معاہدے کے بعد داعش کے فیکٹر کو مضبوط نہیں کریں گے؟

مذکورہ بالا حقائق اور سوالات کے تناظر میں یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ ہمارے خطے میں ایک بھونچال آنے جا رہا ہے اور ہماری سیاسی قوتیں فیصلے سے محروم ہیں۔ اگر امریکہ طالبان مجوزہ معاہدے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث نہ لایا گیا اور سیاسی قوتوں نے فیصلہ نہ کیا تو اس خطے میں امن تو بہت دور کی بات، ہم مزید مشکلات اور تباہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین