• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان 22سے 29فروری تک کا ہفتہ نہایت حساس اور اہمیت کا حامل ہے جس میں جزوی صلح اور جنگ بندی کی کامیابی فریقین کو امن معاہدے پر مہر ثبت کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ اس ممکنہ کامیابی کے تناظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر طالبان جنگ نہ کرنے کے وعدے پر قائم رہے تو امن معاہدے پر میں خود دستخط کروں گا۔ دوسری جانب افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں سے آمدہ اطلاعات کے مطابق جہاں موبائل فون سروس بحال کر دینے کی حوصلہ افزا خبریں سامنے آرہی ہیں۔ بعض دور دراز علاقوں میں معمولی جھڑپوں کی بھی اطلاع ہے۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی یہ بات بجا ہے کہ کچھ طاقتیں امن معاہدے میں رخنہ ڈالنا چاہتی ہیں اور خطے میں امن دیکھنا نہیں چاہتیں۔ عالمی اداروں کو اس کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں بےنقاب کرنا چاہئے۔ مجموعی طور پر بہتری کے حوالے سے آنے والے دنوں میں 29فروری نہایت اہمیت کا حامل اور یادگار دن ہوگا جب قطر کے شہر دوحا میں فریقین کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوں گے جس کے ساتھ ہی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور افغان حکومت و طالبان کے مابین مستقبل کے نظام کے تعین کے لیے مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا۔ اس ضمن میں صدر اشرف غنی پہلے ہی جنگ بندی معاہدے کی کامیابی کی ضرورت کا اظہار کر چکے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ تمام فریقین افغانستان میں جنگ و جدل سے عاجز ہیں اور خطے کی تعمیر و ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ افغان مسئلہ حل کرنے کیلئے ایسے سازگار حالات کبھی سامنے نہیں آئے جو اس وقت ہیں۔ امن کا خواب دیکھنے والوں کو یہ موقع ہرگز ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔ فریقین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ جو قوتیں امن معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں ان سے خبردار رہا جائے اور ان کی سازشیں ناکام بنا دی جائیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین