کہنے کو تو بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال اور محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی اہم ترین مگر پھر بھی بلوچستان دنیا کے سب سے پسماندہ اور غریب ترین علاقوں میں شامل ہے اور اس غربت کو ختم کرنے میں جہاں اس کی اپنی معدنیات کام نہیں آ رہیں وہیں اس کی 760کلومیٹر طویل ساحلی پٹی بھی کوئی کرشمہ دکھانے میں ناکام کیوں ہے؟
آج بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں موجود عام شہری سرکاری اسکول میں استاد، اسپتال میں ڈاکٹر، گھر میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کا رونا روتا نظر آتا ہے۔
وسائل کے انبار کے باجود مسائل کے انبار میں جہاں دیگر عوامل وجہ بن رہے ہیں وہیں قومی میڈیا کی اس خطے سے بےرخی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ حالت یہ ہے کہ آج بھی اکثر قومی ٹی وی چینلز کے نیوز ایڈیٹرز گوادر کو فاصلے کے لحاظ سے کراچی سے قریب اور کوئٹہ سے دور سمجھتے ہیں۔ میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے جو عوام کی رائے بنانے یا بگاڑنے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔
یقیناً میڈیا کی بدولت ہی معاشرے کے ہر ذی شعور شخص کو معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں سے لڑنے کی طاقت ملی ہے۔ جب ہم اپنے نیشنل میڈیا کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو یقیناً دیگر مسائل پر بات نہیں ہوتی، بدقسمتی سے سب کی زیادہ تر توجہ اسلام آباد، پنجاب یا سندھ کی جانب ہوتی ہے۔
یا پھر آخر میں کے پی کا رخ کر لیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہاں سے بےخبر لوگوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ گورننس کا یہ حال ہے کہ صوبائی سروس کے تقریباً 20اور 21گریڈ کے مجموعی طور پر 23سے اوپر سیکریٹریز گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں جبکہ ان کی جگہ جونیئر اور غیرمتعلقہ لوگ خلافِ قانون اہم ترین منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
بلوچستان حد درجہ توجہ کا طالب رہا ہے مگر بلوچستان میں کبھی بھول کر کوئی میڈیا اینکر آ جائے تو محرومیاں بیان کرنے کے بجائے شاہوں کے قصیدے پڑھ کر احساسِ محرومی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ حال ہی میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیا جس میں اینکر کی سچائی جاننے کی کوشش کم اور اپنے آپ کو پروجیکٹ کرنے کی کاوش زیادہ لگ رہی تھی۔
وزیراعلیٰ جب گوادر ماسٹر پلان کی منظوری کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے تو میں سوچنے لگا کہ اگر اسی طرح صرف پلان یا قانون بنانے سے بہتری آ سکتی تو آج سب اچھا ہوتا کیونکہ اب تک کوئی قانون یا پلان خراب نہیں بنا لیکن اصل مسئلہ اس قانون یا پلان پر عملدرآمد ہونا ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا اس وقت تمام کام گوادر ماسٹر پلان کے مطابق ہو رہاہے اور اگر نہیں تو کون اور کب اس پلان کے مطابق عمل کرے گا؟
ویسے گوادر میں اتنے پاورفل انٹرسٹ گروپ ہیں جو کسی بھی حکومت کو چلتا کر سکتے ہیں۔ گزشتہ حکومتیں بھی غالباً نالائق نہیں تھیں لیکن انہیں اپنی حدود کا پتا تھا کہ پلان بن گیا اور اس پر عملدرآمد نہ ہوا تو زیادہ بےعزتی ہو گی۔ اب یہ ذمہ داری موجودہ حکومت کی ہو گی۔
بڑا سوال یہی ہے کہ اضلاع میں اسکول بنانے کا طریقہ کار بھی بیان کیا گیا ہے، میں نے تمام کاغذات کھنگال ڈالے لیکن کچھ نہیں ملا، شاید کہیں بحث ہوئی ہو لیکن منظوری کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بعض اسپتالوں میں دس برسوں کے بعد سرجری کا ذکر بھی بڑے فخر سے کیا گیا ہے۔ اگر محکمہ صحت کی کارکردگی اتنی شاندار تھی تو پھر وزیر اور سیکریٹری کیوں فارغ ہوئے۔
محکمہ صحت کی ویب سائٹ چیک کی کہ شاید ہیلتھ انفارمیشن سسٹم سے کچھ پتا چل سکے لیکن شدید مایوسی ہوئی۔ ویسے اینکر اگر سرجریز کی تعداد پوچھتے اور وزیراعلیٰ بتا دیتے تو بہتر ہوتا کہ کوئٹہ کے علاوہ باقی اضلاع میں اور خصوصی طور پر وزیراعلیٰ کے حلقۂ انتخاب ضلع لسبیلہ میں 18ماہ کے دوران اتنی سرجریز ہوئی ہیں تو ناقدین کے منہ بند ہو جاتے۔
کوئٹہ میں محکمہ صحت کی کارکردگی تو اسپیکر بلوچستان بتا چکے ہیں۔ سڑکوں کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی مرتبہ 2500کلومیٹر روڈ بن رہے ہیں لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ ان کی کوالٹی کیسی ہے۔ یا یہ پچھلی حکومتوں کی پی ایس ڈی پی کی طرح ہیں اور پانچ سال ختم ہونے کے بعد 2،3سو کلومیٹر روڈ ہی بن سکے یا جو بنے ہونگے ان کا صرف نشان ہی باقی رہ جائے گا۔
اب اگر پہلے سے موجود روڈ پر تارکول بچھا دی جائے تو کیا وہ بھی نئے روڈ کے زمرے میں آئے گا یا یہ مرمت شدہ روڈ کہلائے گا؟ اس انٹرویو سے مجھے پتا چلا کہ بلوچستان میں 77کالجز اور 9یونیورسٹیاں ہیں۔
اس طرح اوسط ہر یونیورسٹی کے حصے میں 9کالجز آتے ہیں جہاں سے طلبہ مزید علم حاصل کرنے یونیورسٹی کا رُخ کریں گے۔ آیا بلوچستان کے اضلاع ڈیرہ بگٹی، کوہلو، جھل مگسی، صحبت پور، ڈھاڈر، شوران، مستونگ، نوشکی، موسیٰ خیل، بار کھان، چمن، قلعہ عبداللّٰہ، مسلم باغ، بھاگ، سبی، ہرنائی، زیارت کے کالجز سے طلبہ کی اتنی بڑی تعداد آئے گی جس سے دو یونیورسٹیاں چل سکیں؟
یہ اور اسی طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب شاید اس اینکر کو پوچھنا چاہئے تھے مگر وہ بھی شاید سمجھ گیا تھا کہ بلوچستان کو روایات اور دقیا نوسی فلسفے کے تحت لولا، لنگڑا، گونگا، بہرا ہی چلتے رہنے دینا چاہئے۔