بیلجیئم میں مقیم پاکستانی نژاد اسکالر ڈاکٹر علی شیرازی نے کہا ہے کہ امریکہ میں 9/11 کے واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا بھر میں 4 ملین لوگ ہلاک ہوئے، جن میں 97 فیصد اموات مسلمانوں ہی کی ہوئیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے دنیا کی اولین 10 یونیورسیٹیوں میں شامل یورپ کی واحد بیلجیئن یونیورسٹی KU Leuven میں جہاد اور اسٹیریو ٹائپنگ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔
مختلف موضوعات پر گفتگو کے امریکی پلیٹ فارم TEDX کی جانب سے یونیورسٹی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر علی شیرازی نے کہا کہ آج میڈیا کی بھر پور طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ذہنوں اور دوسروں کے بارے میں سوچ کو تبدیل کیا جارہا ہے۔
اس کی مثال پیش کرنے کے لیے انہوں نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کسطرح ایک دہشت گرد حملہ جب ایک مسلمان نے کیا تو اس واقعے کی 357 مرتبہ کوریج ہوئی۔ جہاں 105 مرتبہ اس کی ہیڈلائین بنائی گئی۔ جبکہ ایسا ہی حملہ یا عمل جب کسی یورپین یا دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے نے انجام دیا تو اسے صرف 15 مرتبہ ہیڈلائن بنایا گیا اور اسے کسی مذہب سے بھی نہیں جوڑا گیا۔
ڈاکٹر علی شیرازی نے ایک اور اہم پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ تین دہائیوں سے جھوٹ انتہائی اعلیٰ سطح پر بولا گیا، جس کی ایک مثال عراق میں "وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں " کی موجودگی کی اطلاع تھی۔
جسے دوسرے ممالک میں مداخلت کا ایک ذریعہ بنایا گیا۔ دہشت گردی کے نام پر ہونے والی اس جنگ میں دوسرے علاقوں کے علاوہ صرف میرے ملک پاکستان میں 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دوران فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دی گئی۔ جس کا نشانہ میرے والد اور بھائی بھی بنے جنہیں رمضان میں جمعہ کی نماز کیلئے جاتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ اب میں اپنے گھر کا واحد مرد کفیل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف ہلاکتیں ہیں جبکہ مجھ سمیت اس جنگ کے متاثرین کی تعداد ان گنت ہے۔
اس موقع پر انہوں نے اسلام میں موجود حرب اور جہاد کے فرق پر روشنی بھی ڈالی۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں جہاد کا اعلان صرف ریاست کرسکتی ہے۔
ڈاکٹر علی شیرازی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہر نسل کو ہر دور میں کمیونزم، سوشل ازم، نازی نظریات اور نیوکلیئر ریس سمیت کسی نہ کسی چیلنج اور ذہنی و سیاسی رجحان کا سامنا کرنا پڑا۔
گذشتہ تین دہائیوں سے ہم اس دہشت گردی کے رجحان کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک فنامنا ہے۔ جو ذہن کی سائنس سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے مختلف مراحل میں فرد یا ریاست کے نظم سے باہر گروہ کا عمل بےچینی پیدا کرتا ہے۔ سویلین سوسائیٹیز جان جانے کے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ جذبات خیالات کو کنٹرول کرنے لگتے ہیں۔فیصلوں میں عقلی دلیل کی گنجائش نہیں رہتی لیکن اس کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
انہوں نے اس صورتحال کو دلیل اور عقل سے حل کرنے کیلئے ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1963 سے لیکر ابتک 87 فیصد دہشت گردانہ اقدامات کی حامل تنظیموں کو ریاستی پالیسی میں تبدیلی اور بات چیت کے نتیجے میں مطمئن کیا گیا۔صرف سات فیصد کو فوجی طاقت کے ذریعے ختم کرنا پڑا۔
ڈاکٹر علی شیرازی نے اس موقع پر تجویز پیش کی کہ مغربی ممالک دوسرے ملکوں میں بالکل مداخلت نہ کریں ۔ میڈیا ہائیپ اور ایک ایسے مذہب کو ٹارگٹ کرنا بند کریں جس کے ماننے والے دنیا میں ایک اعشاریہ 7 بلین ہیں۔ ہمیں دنیا میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ماحول اپنانا ہوگا۔
یاد رہے کہ اس گفتگو میں پیش کئے گئے اعداد و شمار امریکی انسداد دہشت گردی سینٹر، مغربی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور مغربی اداروں ہی سے لیے گئے تھے۔
Tedx پلیٹ فارم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں ہر مقرر کو اپنی گفتگو 18 منٹ میں سمیٹنا ہوتی ہے۔ جسے بعد ازاں سوشل میڈیا کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے سبکرائبررز کی تعداد 24 ملین ہے۔