• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات پاکستان کیلئے یقیناً باعث ِطمانیت ہے کہ امریکی صدر مسئلہ کشمیر کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے اس کے حل کی ضرورت اجاگر کررہے ہیں تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کشمیری عوام نے سات عشروں کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجود بھارتی فوجوں کے جبر و ستم کے آگے جھکنے سے انکار کرکے اپنے انسانی، قانونی و اخلاقی حقوق کے حصول کیلئے جو بے مثال قربانیاں دیں انہوں نے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج دنیا کے ہر حصے میں کشمیری عوام کے استصواب رائے کے اس حق کیلئے آوازیں بلند ہورہی ہیں جس کی اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ضمانت دی گئی تھی۔ یہی نہیں، امریکی برطانوی اور یورپی یونین کے پارلیمانی ایوانوں اور سیکورٹی کونسل کے مختصر عرصے میں منعقدہ تین اجلاسوں میں بھی اس معاملے کی بازگشت ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ بھارت کے دوسرے روز منگل 25؍فروری 2020کو نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کے زیر اہتمام پریس کانفرنس میں تنازع کشمیر پر ایک بار پھر ثالثی کی پیش کش کی، اس معاملے کو ’’حلق کا کانٹا‘‘ قرار دیا اور واضح کیا کہ پاکستان اس پر کام کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ایک دیرینہ تنازع ہے اور انکے خیال میں دونوں ممالک باہمی مسائل حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکی صدر قبل ازیں پیر کے روز گجرات اسٹیڈیم میں پاکستان کو اچھا دوست اور دہشت گردی کے خلاف مثبت کردار کا حامل ملک قرار دیتے ہوئے تعلقات میں بڑی پیشرفت کے امکانات ظاہر کر چکے ہیں۔ منگل کے روز نئی دہلی کی پریس کانفرنس میں بھارتی صحافی کی پاکستان مخالف ریمارکس کیلئے اکسانے کی کوشش کو صدر ٹرمپ پاکستان کی تعریف کرکے اور وزیراعظم عمران خان کیلئے ’’اچھے انسان‘‘ کے الفاظ استعمال کرکے ناکام بنا چکے ہیں۔ پاکستان میں 2018کے عام انتخابات میں نئی حکومت کے قیام کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتوں، حکومت پاکستان کی جانب سے کئے گئے اقدامات اور سفارتی رابطوں کا مثبت نتیجہ واشنگٹن کے ان بیانات کی صورت میں ظاہر ہوا جن میں جنوبی ایشیا میں قیامِ امن کیلئے تنازع کشمیر کے حل کو کلید کہا گیا مگر اس مقصد کیلئے صدر ٹرمپ کی طرف سے کی گئی ثالثی کی سابقہ پیشکشوں کی طرح منگل کے روز کی گئی پیشکش بھی بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے مسترد کردی گئی، جس کے باعث امریکہ پر ایک جانب عالمی طاقت ہونے کی بنا پر اور دوسری طرف تنازع کشمیر پر 1948میں اور بعد ازاں منظور کردہ قراردادوں کے محرک ملک کی حیثیت سے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی ادارے کی قراردادوں کو ان کی حقیقی روح کے مطابق نافذ کرانے کیلئے سرگرم ہو۔ امریکی صدر جس وقت کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ قرار دے رہے تھے، اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بدترین لاک ڈائون کو دو سو سے زیادہ دن گزر چکے تھے۔ نئی دہلی میں انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے بلوائی حملوں سے 13مسلمان شہید اور ڈیڑھ سو زخمی ہو چکے تھے۔ اس منظرنامے میں ٹرمپ مودی مشترکہ اعلامیہ میں نئی دہلی کیلئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت اور سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی حمایت کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ پاکستان کی انتھک کوششوں سے افغانستان میں امن کیلئے جس امریکہ طالبان سمجھوتے کی راہ ہموار ہوئی اس سے نئی دہلی کا متفق ہونا خوش آئند ہے مگر زیادہ مثبت نتائج کیلئے بھارتی قونصل خانوں کے پاکستان میں در اندازی و دہشت گردی کے ماضی کے کردار کا سدباب ضروری ہوگا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان دنوں امریکی صدارتی انتخابات کی سرگرمیوں کے باعث یقیناً مصروف ہیں تاہم اس دوران اگر وہ مظلوم کشمیری عوام کو لاک ڈائون سے نکلوانے اور بھارتی اقلیتوں کا قتل عام رکوانے میں موثر کردار ادا کرسکے تو ان کا یہ عمل ہزاروں نوبیل انعامات پر بھاری ہوگا۔

تازہ ترین