کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہےکہ حراست کےدوران نیب نےکوئی ایک سوال بھی نہیں پوچھا، نیب کا سترہ گریڈ کا افسر فیڈرل سیکرٹریز کو بلا کر کہتا ہے کہ وعدہ معاف گواہ بن جاؤ یا گرفتار ہوجاؤمریم نواز نے کبھی سرکاری عہدہ نہیں رکھا وہ نیب قانون کی تعریف میں نہیں آتی ہیں،ن لیگ پہلی اپوزیشن جماعت ہے جس کی طرف لوگ آرہے ہیں، میں نے ہمیشہ کہا کہ مجھ پر کوئی الزام ہے توتفتیش براہ راست عوام کو دکھائیں۔
میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں کہا کہ کرونا وائرس نے پوری دنیا میں خوف پھیلادیا ہے، پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ہنگامی صورتحال ہے، چین کے بعد سب سے زیادہ ایران ہوا ہے جہاں 26ہلاکتیں ہوچکی ہیں، ایران کی نائب صدر اور نائب وزیرصحت بھی کرونا سے متاثر ہوچکے ہیں، دوسری طرف سعودی عرب میں دنیا بھر سے عمرے کے لئے آنے والے زائرین پر پابندی لگادی گئی ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا کہ مجھ پر کوئی الزام ہے توتفتیش براہ راست عوام کو دکھائیں، نیب کیسوں کی حقیقت عوام تک پہنچانی ہے تو میرے مقدمہ کی سماعت ٹی وی پر براہ راست دکھائی جائے، پی ٹی آئی حکومت آتے ہی مجھے نیب کی طرف سے مختلف پروفارمے آنا شروع ہوگئے، میں نے خود پر لگائے گئے تمام الزامات کا جواب دیا۔
نیب نے جتنی دفعہ مجھے بلایا میں وہاں گیا اور ان کے سوالوں کے جواب دیئے، ملک سے باہر تھا تو میرا نام ای سی ایل پر ڈالنے کی خبر آئی، یہ خبر سننے کے بعد واپس پاکستان آگیا تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ میں ملک سے بھاگنا چاہتا ہوں۔
نیب کو بیس سال کی آمدن، اخراجات، غیرملکی سفر، گیس بجلی کے بلوں کی دستاویزفراہم کیں حالانکہ اس کی کوئی قانونی ضرورت نہیں تھی، اپنے اثاثوں کی تفصیلات اور اثاثے کیسے بنے یہ سب بھی بتایا، تمام بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی نیب کے حوالے کردیں، نیب نے اس کے بعد مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اٹھارہ تاریخ کو مجھے لاہورجاتے ہوئے صرف وارنٹ کی کاپی پر گرفتار کیا گیا، مجھے کہا گیا کہ سولہ تاریخ کو آپ کو نوٹس بھیجا تھا آپ نہیں آئے تو گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیئے ،ان کی بدنیتی دیکھئے کہ میرے وارنٹ گرفتاری سولہ تاریخ کو جاری کیے گئے تھے، نیب کے ریمانڈ کی کسی موقع پر مخالفت نہیں کی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب مجھ سے آج بھی کچھ پوچھنا چاہتا ہے تو پوچھ لے لیکن شاہزیب خانزادہ کا کیمرہ سامنے ہونا چاہئے، میں 70دن ریمانڈ پر رہا نیب نے مجھ سے کوئی ایک سوال نہیں پوچھا، نیب والے میرے پاس آتے تو وہی پرانے سوالات کرتے۔
ان کے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت یا دستاویز نہیں تھی، میرے وزیر ہوتے ہوئے وزارت میں جو فیصلے ہوئے اس کیلئے ذمہ دار ہوں، میرے وزیراعظم ہوتے ہوئے کابینہ کے فیصلے ہوئے ان کی بھی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ نیب نے مجھ سے آج تک یہ نہیں پوچھا کہ میں ٹیکس دیتا ہوں یا نہیں دیتا، کرپشن پکڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پوچھا جائے ٹیکس کتنا دیتے ہو، عمران خان ، عارف علوی، چیئرمین نیب اور کابینہ جواب دے کہ کتنا ٹیکس دیتے ہیں، کیا یہ لوگ اتنا ٹیکس دیتے ہیں کہ ان کے اخراجات کو پورا کرسکتا ہو، مجھ سے نیب کسٹڈی میں تحقیقات نہیں ہوئی تواڈیالہ جیل میں کیا ہونا تھی،چار مہینے تک قید تنہائی میں رہا کبھی شکایت نہیں کی، احسن اقبال وہاں پہنچے تو کوئی دوسرا شخص نظر آیا ورنہ میں اکیلا رہتا تھا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب کی چائے اچھی ہوتی ہے مجھ سے سوال پوچھنا ہے تو دفتر بلالیں مگر ان کے پاس مجھ سے پوچھنے کیلئے کوئی سوال نہیں ہے، مجھے سزائے موت کے سیل میں رکھنا حکومت کی چھوٹی سوچ کی عکاسی کرتی ہے، میرے ساتھ والے سیلوں میں بھی سزائے موت اور عمرقید کے قیدی تھے، مجھے کوئی گلہ شکوہ نہیں صرف وزیراعظم کی گھٹیا سوچ پر افسوس ہے۔
جس حکومت اور وزیراعظم کی سوچ اتنی گھٹیا ہو کہ وہ یہ پتا کرتے رہے کہ فلاں آدمی جیل میں کیا کھارہا ہے، کہاں رہ رہا ہے اس حکومت نے ملک کے عوام کیلئے کیا کرنا ہے، مجھے پھر جیل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں میرے ہاتھ صاف ضمیر مطمئن ہے، جو حکومت ای سی ایل دیکھتی رہے گی وہ آٹے چینی کا بحران کب حل کرے گی۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ کام کیا تھا انہیں پیغام بھیجا کہ مجھے کوئی شکایت نہیں ہوگی آپ میرے خلاف بیان دیدیں اور اپنی جان بچائیں ، نیب کا سترہ گریڈ کا افسر فیڈرل سیکرٹریز کو بلا کر کہتا ہے کہ وعدہ معاف گواہ بن جاؤ یا گرفتار ہوجاؤ۔
ریٹائرڈ ڈی جی ایف آئی نے بیان دیا کہ انہیں وزیراعظم نے کچھ لوگوں کو پکڑنے کیلئے کہا تھا، نیب نے پانچ مہینے بعد بھی میرے خلاف ریفرنس فائل نہیں کیا، نیب سیاسی انجینئرنگ کا ادارہ ہے جس نے معیشت کو تباہ اور گورننس کو ختم کردیا ہے، نیب کو ختم نہیں کیاگیا تو ملک کی معیشت کھاجائے گا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مجھے کسی کیخلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی پیشکش کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہیں، مجھے دوسرے لوگوں کے ذریعہ گھر بیٹھنے کے پیغامات دیئے گئے، اگر مجھ جیسا شخص جسے پارٹی اور قوم نے وزیراعظم بنایا ہو وہ گھر بیٹھ جائے تو نظام نہیں چلے گا، ملک کے نظام، معیشت اور گورننس میں خرابی پر بات کرنا میری اخلاقی ذمہ داری ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میری پارٹی میں کسی سے کوئی ناراضی نہیں ہے، پارٹی کے کچھ فیصلے شاید مجھے پسند نہ ہوں لیکن ان فیصلوں میں شریک ہوں، بہت سی باتوں پر خوش نہیں ہوں لیکن جوجماعت کا موقف ہے وہی میرا موقف ہے، ن لیگ اپنی جگہ پر کھڑی ہے آج تک کوئی ارکان اسمبلی نہیں ٹوٹا ہے جو نئی روایت ہے، ن لیگ پہلی اپوزیشن جماعت ہے جس کی طرف لوگ آرہے ہیں، بہت سے لوگ ن لیگ میں واپس آنے کیلئے مجھ سے رابطے کرتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کیا کسی کا علاج کروانا اسے ریلیف سمجھا جاتا ہے، مریم نواز نے کبھی سرکاری عہدہ نہیں رکھا وہ نیب قانون کی تعریف میں نہیں آتی ہیں، نیب کا ہر عمل جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے، ن لیگ ہر روز اسمبلی میں اور باہر اپنا موقف بیان کرتی ہے، یہ توقع کرنا ٹھیک نہیں کہ مریم نواز ہر روز بیان دیں گی،پارٹی کا کوئی بھی لیڈر بول رہا ہے تو وہ پارٹی کی آواز ہوتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ خواجہ آصف سمیت کسی سے سے میری کوئی ناراضی نہیں ہے، اختلاف اور ایشوز ہوسکتے ہیں لیکن وہ ختم ہوجاتے ہیں، میرا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ ہر قانون پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے، ایک ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی، ماضی میں قانون لمبی مشاورت کے پاس منظور ہوتے تھے، جس بل پر پارلیمنٹ میں بات نہیں ہوتی اس کے اثرات مضر ہوتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میں نہ کسی عہدے کا طلبگار رہا ہوں نہ آج امیدوار ہوں، چھبیس سال رکن قومی اسمبلی رہنے کے بعد وزیر بنا تھا، نواز شریف کا پیغام ملا کہ آپ ضمانت کیلئے اپلائی نہیں کررہے اس سے متفق نہیں ہوں، میں نے یہی کہا کہ میں چاہتا ہوں نیب ہمارا ٹرائل کرے تاکہ عوام کو حقائق پتا چلیں۔
نواز شریف نے کہا کہ آپ ضمانت کیلئے اپلائی کریں آپ اپنا حق نہ چھوڑیں، اس کے بعد میں نے ضمانت کیلئے درخواست دی، امید ہے یہ کیس لینڈ مارک ہو گا اور نیب جس ہاتھ میں استرا ہے اس کو کاٹ دے گا، نیب گرفتاری کی دھمکیاں دے کر لوگوں کو ڈراتا ہے یہ چیز اب ختم ہوجائے گی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں نے عمر ایوب کو کہا کہ ایل این جی کے معاملہ کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، عمر ایوب چاہیں تو کیمرے کے سامنے مجھ سے دوبدو بات کرلیں، دیگر کموڈٹیز کی طرح ایل این جی کی قیمتیں بھی اوپر نیچے جاتی ہیں، انڈیا کی ریلائنس انڈسٹریز نے 2ڈالرز 80سینٹ کی ایل این جی بھی خریدی ہے لیکن یہ وہ شپس ہیں جوچائنا سے واپس بھیجے جارہے ہیں۔
ہم پاکستان میں جو گیس پیدا کررہے ہیں اس کیلئے 6ڈالر ادا کررہے ہیں، مارکیٹ میں تین ڈالر کی ایل این جی مل رہی ہے پاکستان کو اپنی پروڈکشن بندکر کے ایل این جی خریدنی چاہئے۔
حکومت ایل این جی ذخیرہ کرنے کیلئے ہمارے بنائے گئے ٹرمینلز استعمال کرے، انڈیا پاکستان سے تین گنا زیادہ ایل این جی قطر سے خریدتا ہے ان کی مجموعی قیمت ہم سے زیادہ ہے۔
اس کابینہ میں دو وزیر ایسے ہیں جو خود ایل این جی سے مستفید ہوئے، لیکن ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ کابینہ میں کہہ سکیں کہ ن لیگ حکومت نے جو ایل این جی ڈیل کی اس سے بہتر ڈیل اس وقت ممکن نہیں تھی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہماری سیاسی حکمت عملی عوام کے حق میں ہوگی، حکومت ملک کو تباہی کی طرف لے کر جارہی ہے، کیا ہم بیٹھ کر عوام کی تباہی دیکھتے رہیں۔
عمران خان کو پانچ سال مکمل کرنے دینا بہتر سیاسی فیصلہ ہوتا لیکن ہم ملک کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے، پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے نئے الیکشن میں جانا ہوگا، نئے الیکشن سے پہلے اسٹیک ہولڈرز کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ مستقبل میں ملک کے معاملات کیسے چلیں گے، پاکستان کی عوام کو پہلا فیئر اینڈ فری الیکشن دیں تاکہ ملک آگے چل سکے۔