• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روکنے کے باوجود عدالتوں میں موجود ہیں، کورونا حکومتی نااہلی سے آیا، چیف جسٹس

روکنے کے باوجود عدالتوں میں موجود ہیں، کورونا حکومتی نااہلی سے آیا، چیف جسٹس


اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ارشد ملک کو فرائض جاری رکھنے کی اجازت دیدی۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومتی نا اہلی سے کرونا وائرس پاکستان آیا، اپنا کام کیا نہیں اور ہمیں کہہ دیا عدالتیں بند کر دیں، روکنے کے باوجودہم تو عدالتی کام کیلئے یہاں موجود ہیں، وائرس بیرون ملک سے بذریعہ ائیرپورٹس آیا، پی آئی اے کی بھی نا اہلی ہے، سکیورٹی کا یہی حا ل رہا تو جانے کون کون سی مزید بیماریاں آئینگی۔ 

تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3؍رکنی بینچ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سماعت کی۔

بدھ کو عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سماعت کی۔دوران سماعت ملک میں کورونا وائرس کا ذکر بھی آیا جہاں چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ جو کورونا وائرس ایئرپورٹ سے ملک میں آیا، یہ حکومت اور پی آئی اے کی نااہلی کی وجہ سے ہوا۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ہر جگہ ملک بھر میں کورونا کی بات ہورہی ہے، اگر سیکیورٹی کا یہ حال رہا تو پتہ نہیں مزید کون سی بیماریاں ملک میں آجائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے حکومت نے کورونا کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا اور ہمیں کہہ دیا کہ عدالتیں کام روک دیں، ہم تو عدالتی کام کے لیے یہاں موجود ہیں۔

اس موقع پر کیس سے متعلق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایئرمارشل ارشد ملک اچھے اور قابل انسان ہیں، 9 برسوں میں پی آئی اے کے 12سربراہ تبدیل ہو چکے ہیں۔ 

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پی آئی اے کے بارے میں کوئی ایک چیز بتائیں جو اچھی ہو، پی آئی اے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے کیا اس کو بند کریں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی ایئرپورٹ پر خستہ اور خراب حالات میں جہاز کھڑے ہوئے ہیں، اگر خدانخواستہ حادثہ ہو گیا تو لوگوں کا کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ایئرپورٹ کی طرف گند نظر آتا ہے، ہر خراب چیز ایئرپورٹ پر نظر آتی ہے، پی آئی اے، اے ایس ایف اور کسٹمز والے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے میں کوئی پروفیشنلزم نظر نہیں آتا، ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں ادارے کا مستقل 3 سال کیلئے سربراہ چاہیے جو ادارے کو بہتر کرسکے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس ادارے میں ایک حکومت اپنے بندے بھرتی کرتی ہے اور دوسری آکر نکال دیتی ہے، نکالے جانے والے بعد میں ترقی اور رقوم کا دعوی کرتے ہیں، ان کو پھر تیسری حکومت لاکھوں روپے دے دیتی ہے۔

تازہ ترین