• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق و مغرب سنسان ہیں۔ یورپ کے گلی کوچے ویران ہیں۔ واشنگٹن، نیویارک پریشان ہیں۔ عالمی قیادتیں حیران ہیں۔ بحر و بر تسخیر کرنے والا انسان ایک چھوٹے سے جرثومے کے آگے بےبس ہے۔ پینٹاگون کے جدید ترین مہلک ہتھیار اس خفیہ دشمن کو زیر کرنے سے قاصر ہیں۔ کہیں بھی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سے اتارے جانے والے کمانڈرز اب خود ماسک پہنے کمروں میں چھپنے پر مجبور ہیں۔ لیکن تاریخ میرا ہاتھ تھام کر کہہ رہی ہے کہ ذرا چھٹی صدی، چودہویں صدی، پندرہویں اور بیسویں صدی پر نظر ڈالو۔ طاعون، کالی موت، چیچک، ہیضے کی وبائیں پھوٹتی تھیں تو کروڑوں لاکھوں جیتے جاگتے روزانہ دم توڑ دیتے تھے۔ آج کے جدید اسپتال تھے نہ دوا ساز کارخانے، نہ ہی میڈیا۔ ہر وبا نے انسانی فکر کو تازیانے لگائے۔ انسان تحقیق سے جُڑ گیا۔ طبی آلات ایجاد ہوئے۔ دوائیں، محلول اور ٹیکے۔ انسانی زندگی محفوظ ہوتی گئی۔ اب تیسرا مہینہ ہے۔ دنیا کی سات ارب 80کروڑ آبادی میں سے قریباً 10ہزار اموات ہوئی ہیں۔ اڑھائی لاکھ کے قریب کورونا متاثرین ہیں۔ مگر دنیا کی طنابیں کھنچی ہوئی ہیں۔ کہیں بھی کرونا کا وار ہوتا ہے تو دور دراز علاقوں میں اطلاع پہنچ جاتی ہے۔ یہ رابطوں کی صدی ہے۔ رابطے ہی کورونا کی بہترین سواری ہیں۔ اسے پاسپورٹ درکار ہے نہ ویزا۔ ایک سو اسی ملکوں میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن انسان نے ہمت نہیں ہاری۔ لندن اب بھی متاثر ہے۔ مگر تاریک صدیوں والا حال نہیں ہے۔ لاکھوں بلیاں کتے ہلاک نہیں کیے جا رہے۔ گھروں کے باہر صلیب کے سرخ نشان نہیں بنائے جا رہے۔ خطرناک وبائوں کا سراغ بھی جلد لگ جاتا ہے۔ احتیاطی تدابیر بھی فوراً ہی دنیا بھر میں نشر کر دی جاتی ہیں۔

پاکستان سمیت سارے ملکوں کی حکومتیں اس نادیدہ دشمن سے نمٹنے میں دن رات مصروف ہیں۔ اربوں کی رقوم مختص کی جا رہی ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس خاردار جرثومے کے فوری اور مہلک اثرات تو کم از کم چھ ماہ تک متحرک رہیں گے۔ لیکن اس کے دور رس اثرات کم از کم ڈیڑھ سال تک قوموں کو اپنے شکنجے میں گرفتار رکھیں گے۔ امریکی صدر بش تو 2001ء میں نئے عالمی نظام لانے کا دعویٰ کر رہے تھے لیکن اب واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ کووِڈ 19کے بعد دنیا بدل جائے گی۔ ہر علاقہ تبدیل ہوگا۔ ہر قوم کی سوچ بدلے گی۔ پاکستان بھی بدلے گا۔

عالمی قیادتوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ جمہوریت کی آزمائش ہے۔ آمریت کو چیلنج ہے۔ حکمران سیاسی پارٹیاں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ اپوزیشن لیڈروں کا کچا چٹھہ کھل رہا ہے۔ بستر علالت پر پڑی قومیں جب غسل صحت کرکے واپس اپنی باگ ڈور سنبھالیں گی، جب حکومتیں آئی سی او سے باہر آئیں گی، جب لیڈرز اپنے ناک منہ سے ماسک ہٹائیں گے تو دنیا بہت بدل چکی ہوگی۔ معاشرے حکومتوں سے آگے نکل جائیں گے۔ قوموں کے درمیان تعلقات نئے سرے سے مرتب ہوں گے۔ خارجہ پالیسیاں دنیا بھر میں تبدیل ہو جائیں گی۔ میں یہ نتائج تاریخ کے متعلقہ ادوار میں ہونے والے تغیرات کے مطابق اخذ کر رہا ہوں۔ ہر بڑی وبا کے بعد دنیا میں بڑی اور مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ طاعون کے بعد تو عالمی جنگ بھی لڑ گئی۔ سب سے زیادہ بدلائو تو طبی دنیا اور دوا سازی میں آئے گا۔ سماجی رویے مجموعی طور پر بدلیں گے۔ غور کیجئے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوں میں کئی کروڑ انسان اس وقت معمول سے ہٹ کر اپنے گھروں میں وقت گزار رہے ہیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ بیشتر اکیلے ہیں یا صرف میاں بیوی۔ یہ تنہائی ان کی سوچ کا رُخ موڑ رہی ہے۔ بڑے بڑے فلسفی، سائنسدان، ماہرینِ تعلیم، سماجی مفکر، علمائے دین بہت کچھ سوچ رہے ہیں۔ ان کو اپنے معمولات سے جبراً ہٹنا پڑا ہے۔ یہ سب مستقبل کی فکر کر رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں کہ ہم سے کہاں کہاں، کیا کیا غلطیاں ہوئی ہیں۔ تنہائیاں، خاموشیاں اور سناٹے نئی رنگینیوں اور رونقوں کو جنم دیں گے۔

پاکستان میں کیا سوچا جا رہا ہے یہ تو ٹویٹر، فیس بک، اخباری کالموں اور ٹاک شوز سے ظاہر ہو رہا ہے۔ وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ لیکن ہمارے پروفیسرز، ماہرین تعلیم، ڈاکٹرز بہت کچھ سوچ رہے ہیں۔ وہ اپنا وقت اور عقل سوشل میڈیا پر ضائع نہیں کرتے۔

جدید ٹیکنالوجی اور بہترین طبی سہولتوں کے باعث ہلاکتیں کم ہیں۔ لیکن سماجی رویے، مذہبی فکر مزاحمت کر رہی ہے۔ پاکستان میں وفاق اور پنجاب میں حکمراں پی ٹی آئی، سندھ میں حکمران پی پی پی، اپوزیشن مسلم لیگ (ن) تینوں بحیثیت سیاسی پارٹی بالکل بےحس اور ناکام رہی ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ نے ذاتی طور پر بہت راست فکری اور انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے مگر کسی سیاسی پارٹی نے اتنی بڑی وبا پر اپنی مرکزی کمیٹی کا اجلاس بالمشافہ یا آن لائن نہیں بلایا۔ نہ کسی نے اتنے بڑے سماجی بحران پر کوئی پالیسی بیان جاری کیا ہے۔ علمائے کرام بھی اپنے منصب سے غافل ہیں۔ سب سے زیادہ مایوسی اطبا اور حکما کی طرف سے ہوئی ہے۔ ان کی خاموشی نے اس قدیم روایتی پیشے کی بےعملی ثابت کی ہے۔ بلدیاتی اداروں کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی ہے۔ اگر یہ بااختیار ہوتے تو ہمارے شہروں میں اس وبا کا مقابلہ اور زیادہ نظم و ضبط سے ہوتا۔

میرے خیال میں تو پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں پہلی وبا ہے۔ ہنگامی طور پر تو اس کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ ﷲ تعالیٰ رحم کرے، ہلاکتیں زیادہ نہ ہوں۔ اس وبا نے جس طرح پورے ملک کو ایک طرح جھنجھوڑا ہے۔ بین الصوبائی رابطوں میں خامیاں نظر آئی ہیں۔ اسپتالوں کی کمی، وینٹی لیٹرز کی قلت، ڈاکٹروں نرسوں کی عدم تربیت، بہت انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ حکومت اور پرائیویٹ شعبے میں صحت اور سماجی رویوں کے حوالے سے بہت زیادہ اشتراک ناگزیر ہوگا۔ علمائے کرام کو اجتہادی سوچ اختیار کرنا ہوگی۔

تاریخ گواہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ ایسی آزمائش میں انسان کو اسی لیے ڈالتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے بہتر رویے اختیار کر سکے۔ انسانی زندگی میں آسانیاں لانے کے لیے نئے طریقے تلاش کرے۔ نئے آلات ایجاد کرے۔ ہمارا خالق اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے۔ اسے ترغیب دیتا ہے کہ وہ کائنات اور امکانات میں موجود سہولتیں ڈھونڈ کر ان کی صورت گری کرے اور روز مرہ کے استعمال میں لائے۔ غیر مسلم قومیں اسی انداز سے سوچ رہی ہیں، تحقیق میں مصروف ہیں۔ کیا ہماری یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں، تجربہ گاہوں اور دینی مدارس میں ان خطوط پر کوئی کام ہو رہا ہے؟

تازہ ترین