’’بھدریشر نگری ‘‘جسے اب بھوڈیسر کہا جاتا ہے،نگرپاکر شہر سے دو میل شمال مغرب میں کارونجھر پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔جہاں کے قدیم کھنڈرات اور سرخ پتھروں کی چمک دمک دیکھ کر لگتاہے کسی وقت وہاں کی آبادی خوش حالی کی زندگی بسر کررہی تھی۔ یہاں کے رہنے والے جین مت کے پیروکار تھے ۔پاکستان بننے کے بعد جین مت کے ماننے والے اپنی مورتیاں لے کر یہاں سے نقل مکانی کرگئےتھے۔ان کی یادگاریںمندروں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔بھوڈیسر عام طور پر بھوڈیسر ناگرے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جس کی مناسبت سے علاقے کا نام نگر پارکر پڑ گیا۔
بھوڈیسر شہر کی بنیاد515قبل مسیح میں رکھی گئی تھی۔نوکوٹی مارواڑ کے دوہے کے مطابق ھانسی نے اپنی حکومت کا صدر مقام پاری نگر کو بنایا تھا،اس کا دوسرا بھائی بھوڈو تھا۔جس نے آکر بھوڈیسر بسایا۔اس زمانے میں یہاں جین مت اور راجپوت قبیلے سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے۔جینی لوگ جوکافی دولت مند تھے، تھر کے حکمران، رانا بھوڈیسر کو خراج ادا کرتے تھے۔تقریباً600سال قبل مسیح میں مہاویر نامی شخص نے جین دھرم کی بنیاد رکھی تھی۔بعض محققین کا کہنا ہے کہ جین مت، ہندو دھرم کی ہی ایک شاخ ہے جبکہ چند محققین کے دعوے کے مطابق یہ بدھ مذہب سے زیادہ قریب ہے۔اس مت کے ماننے والے انتہائی پرامن لوگ تھے، وہ اپنی ذات سے کسی جاندار کو نقصان پہنچاناگناہ تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہ ننگے پاؤں اور منہ پر کپڑا باندھ کر چلتے اور سرشام کھانا پکالیتے اور گھروں میں روشنی کے لیے لالٹین، دئیے یا چراغ نہیں جلاتے تھےکہ کہیں کسی جاندار کواس سے نقصان پہنچ جائے۔جین افراد تعمیراتی فن کے ماہر تھے ،انہوں نے یہاں متعدد مندر تعمیر کیےجو اب زبوں حالی کا شکار ہیں۔
بعض مؤرخین کایہ بھی کہنا ہے کہ اس علاقے کا نام وادی سندھ کی ملکہ، ’’ بھوڈی‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ اس نے کارونجھر پہاڑیوں کے دامن میں ایک خوب صورت تالاب تعمیر کرایا ، جسے سلطان محمود غزنوی کی وجہ سے تاریخی حیثیت حاصل ہوگئی۔ روایت کے مطابق سومنات کی مہم کے دوران سلطان محمود غزنوی صحرائے تھر سے گزرتے ہوئے راستہ بھول گیا اور وہ بھٹکتے بھٹکتے، کارونجھر کی پہاڑیوںکے پا س پہنچ گیا۔ شدید پیاس کے عالم میں، وہ پانی کی تلاش میں اپنے لشکر کے ہمراہ مذکورہ تالاب پر پہنچا جہاں اس نے اور اس کے سپاہیوں نے اپنی پیاس بجھائی اور سفر کے لیے پانی کا ذخیرہ ساتھ رکھ لیا۔ اس واقعے کی یاد میں اس نے یہاں ایک یادگار تعمیر کرائی۔
14یا15ویں صدی عیسوی میں پارکر میں سوڈھوں اور کھوسوں کا بہت زور تھا۔ان کے ہاتھوں علاقےکی رعایا کافی تنگ تھی۔ انہوں نے ہندوستان کےتغلق خاندان کے بادشاہ سے شکایت کی جس نے گجرات کے حکم ران سلطان محمود بیگڑا کو ان کی سرکوبی کا حکم دیا۔ سلطان محمود نے فوج کشی کرکے ان قبائل کو شکست دی لیکن اس کی گجرات واپسی کے بعد انہوں نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کردیا، اس نے دوبارہ حملہ کیااور شہر میں امن و امان بحال کرنے کے بعد واپس اپنے دارالسلطنت، احمد آباد لوٹ گیا۔اس کے کچھ عرصے بعد سلطان محمود بیگڑے کی والدہ قافلے کے ساتھ بھوڈیسر کے پاس سے گزر رہی تھیں کہ سوڈھوں نے ان کے قافلے کو روک کرچنگی وصول کی۔بعض مؤرخین کے مطابق سلطان کی والدہ کے پاس پارس منی تھی وہ بھی ان سے چھین لی گئی۔بیگڑے کی والدہ جب احمد آباد پہنچیں تو انہوں نے یہ سارا ماجرہ بیگڑے کو سنایا ۔تب وہ تیسری فعہ 1505ء میں بھوڈیسر پر حملہ آور ہوا۔گھمسان کی لڑائی ہوئی، جس میں سلطان کے بہت سے آدمی مارے گئے اور سوڈھوں کا بھی کافی جانی نقصان ہوا۔ ا س نے یہاں اپنی فوج کےمسلمان سپاہیوں کو آباد کرکے’’ بھوڈیسرمسجد‘‘ تعمیر کرائی جو اسی مقام پر واقع ہے جہاں سلطان محمود غزنوی نے یادگار تعمیر کرائی تھی۔
یہ عظیم الشان مسجد جس کی لمبائی اور چوڑائی تیس فٹ ہے ، اسلامی او ر جین مت کے پیروکاروں کے تعمیری فن کا لازوال شاہ کار ہے۔ ۔تعمیر میں تمام دیواروں اور فرش میں سنگ مر مر کے بڑے بڑے پتھر استعمال میں لائے گئے ہیں جو ایک دوسرے پر اس طرح رکھے ہوئے ہیں کہ لگتا ہے کہ کسی نے آج ہی رکھے ہوں۔اندرون اور بیرونی حصہ کی تعمیر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے۔مسجد کے تین گنبد اور و محراب کارونجھر پہاڑیوں سے لائے گئے پتھروں سے انتہائی خوب صورتی کے ساتھ تعمیر کیے گئے ہیں۔۔بھوڈیسر مسجد میں سفید سنگ مرمر پر جین فن تعمیر سے دلکش و حسین نقش و نگار دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتے ہیں ۔کارونجھر کے طلسماتی پہاڑوں کے دامن میں واقع تاریخی بھوڈیسرمسجد کی بناوٹ میں وادی مہران کی قدیم تہذیب کا رنگ بھی جھلکتا نظرآتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں اس وقت جین دھرم کے کاریگروں نے مذہبی رواداری کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے بھرپور حصہ لیا تھا۔سنگِ مرمر کے ستونوں پر مشتمل یہ مسجد اپنی مثال آپ ہے۔ مسجد کے وسیع و عریض صحن میں تاریخی قبرستان واقع ہے جس میں پتھروں سے بنائی ہوئی قبریں ہیں ، جوکھوسوں کے ساتھ جنگ میں شہید ہونے والے محمود ہیگڑے کے سپاہیوں کی ہیںـ۔کئی صدیاں گزرنے کے باوجود یہ قدیم مسجد اپنا وجود ابھی تک برقرار رکھے ہوئے ہے ، مگر حکومت کی عدم توجہی کے باعث تاریخی ورثہ نے اپنی پہچان کھونا شروع کر دی تھی اورمسجد کی دیواریں آہستہ آہستہ منہدم ہورہی تھیں۔لیکن حکومت پاکستان کی عدم توجہی کے باعث یہ تاریخی مسجد کافی عرصہ سے خستہ حالی کا شکار تھی۔مگر صوبائی وزیر سیاحت سید سردارعلی شاہ نے نگرپاکر میں موجود دیگر قدیم آثارکے ساتھ بھوڈیسر مسجد کی مرمت و رنگ روغن کا کام کروایا ہے جس سے مسجد کی ہئیت ایک بار پھر نکھر کر سامنے آئی ہے اور اس کی مزید انہدامی کاا خطرہ عارضی طور پر ٹل چکا ہے ۔ بھوڈیسر کی مسجد دیکھنے کے لیے بارشوں کے موسم میں ہرسال ہزاروں سیاح نگرپاکرکے شہر بھوڈیسر کا رخ کرتے ہیں اورسیکڑوں سال قبل تعمیرکیے گئے تاریخی آثار کےان مٹ نقوش اپنے کیمروںمیں قید کرتے ہیں۔مسجد کی پشت پر پہاڑیوں کے دامن میں املکہ بھوڈی کا تعمیر کرایا ہوا خوبصورت تالاب جھیل کی شکل میں موجود ہے جو بارش ہونے کے بعد لبا لب بھر جاتا ہے اور ہ پانی پورا سال موجود رہتا ہے اور سردیوں کے موسم میں پردیسی پرندے بھی آکر یہاں ڈیرہ ڈالتے ہیں مگر گزشتہ دو سالوں سے بارشیں نہ ہونے کے سبب یہ خالی نظر آتا ہے۔
کتاب پرانا پارکر کے مصنف مگھا رام اوجھا رقم طراز ہیں کہ سلطان محمود غزنوی دو روز تک اس تلائو کے پاس آکر قیام پذیر رہا ہے اور محمود شاھ بیگڑے اور سوڈھوں کے درمیان جنگ بھی اسی تالاب کے پاس ہوئی ۔اس تالاب کی ویرانی کی وجہ سے اسے بھوتوں کا تالاب بھی کہا جانے لگا اور لوگ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ اس قدیم آثار کو بچانے کے لیے اس میں پانی کا انتظام کر کے اسے ایک خوبصورت جھیل میں بدل کرسیاحتی مقام بنایا جاسکتا ہے۔اس تالاب کے گرد بنے پتھریلے ٹیلے پر شام ڈھلے بیٹھ کر کارونجھر کی پہاڑیوں کے دلکش نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ شام کے وقت کارونجھر پہاڑ کے وسط سے لوٹتے مویشیوں کے ریوڑ کی گھنٹیاں اور چرواہوں کی ’’چل چل ‘‘کی آوازیں سحر سا طاری کر دیتی ہیں۔نگرپاکر کے ان مقامات پر سیاحت کو مزید فروغ دے کر سیاحتی مقامات قائم کئے جائیں تو اس علاقے کے حالات کو بدلا جا سکتا ہے اور یوں سیاحوں کی آمد سے قدرتی نعمتوں سے مالا مال اس خطے کے عروج کو ایک پا پھرواپس لایاجا سکتا ہے۔