ہمارے کرہ ٔ ارض سے سب سے قر یب ترین ستارہ سورج ہے لیکن ابھی تک اس کے بارے میں سائنس دا ں پوری طر ح نہیں جان سکے ہیں ،اسی مقصد کے لیے حال ہی میں یورپ نے اپنا نیا خلا ئی جہاز’’سولرآربیٹر‘‘ سورج کی جانب روانہ کیا ہے ۔سورج کےمدار میں بھیجا گیا خلائی جہاز سولر آر بیٹر سورج کا قریبی جائزہ لےگا ۔اس جہاز میں ایسے کیمرے اور سینسر نصب کیے ہیںجو ممکنہ طور پر ہمارے ستارے میں پوشیدہ رازوں کے بارے میں ہمیں بتا ئے گا ۔سا ئنس داں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سورج میں اتنی تبدیلیاں کیوں رونما ہوتی ہیں ۔اس خلائی جہاز کو امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کیناویرل اسپیس سینٹر سے اٹلس راکٹ پر صبح کے وقت لانچ کیا گیا ہے ۔
سورج کبھی کبھی اچانک اربوں ٹن مادّہ اور پیچیدہ مقناطیسی لہریں خارج کر تا ہے ،جس سے زمین پر بھی گہرےاثرات پڑتے ہیں ۔اس عمل کو سائنسی اصطلاح ’’شمسی طوفا ن ‘‘ کہا جا تا ہے ۔ماہرین کے مطابق بدترین شمسی طوفان کے دوران سیٹلائٹس پر موجود الیکٹرونک آلات ٹرپ ہوجاتے ہیں ،رابطوں میں خلل پڑتا ہے اور یہ بجلی کے گرڈز کو بھی وقتی طور پر بند کر سکتا ہے ۔محققین کو اُمید ہے کہ سولر آر بیٹر سے حاصل ہونے والی معلومات سے شمسی طوفان کی پیش گوئی کرنے والے ماڈلز میں بہتری لائی جاسکے گی ۔ یہ خلائی جہاز یورپی خلائی ادارے (ای ایس اے ) کا پروجیکٹ ہے لیکن اس میں امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی حصہ لیا ہےاور اسے لانچ کرنے کی ذمہ داری بھی ناسا نےہی پوری کی ہے ۔
ناسا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سولر آر بیٹر کو ایسے راستے پر ڈالا جائے گا جو اسے بتدریج سورج کی سطح سے صرف چار کروڑ 20 لاکھ کلو میٹر (دوکروڑ 60 لاکھ میل ) کے فاصلے تک لے جائے گا ۔یہ سیارہ عطارد (مرکری ) سے بھی زیادہ قریب ہے جہاںپہلے ہی در جہ ٔ حرارت بے انتہا زیادہ ہے ۔سورج کی شدید حدت سے بچے رہنے کے لیے خلائی جہاز کو ایک بڑی سی ٹائٹنیئم کی ڈھال کے پیچھے رہنا پڑے گا ۔ تصاویر نہایت باریک سوراخوں سے لی جائیں گی ۔جنھیں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد بند کردیا جائے گا ،تا کہ اندرونی آلات کو گرمی سے بچا یا جا سکے ۔طیارے اور خلائی جہاز بنانے والی یورپی کمپنی ائیر بس میں سسٹمز انجینئر ڈاکٹر مشیل سپریک کے مطابق ہمیں کئی نئی ٹیکنالوجیز بنانی پڑیں گی،تا کہ اس بات کو یقینی بنا یا جاسکے کہ یہ خلائی جہاز 600 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے در جہ ٔ حرارت کو بر داشت کرسکے گا ۔
ڈاکٹر سپریک کا کہناہے کہ 'خلائی جہاز کو شدید گرمی سے بچائے رکھنے کے لیے جانوروں کی بیک کی گئی ہڈیوں سے بنائی گئی ایک کوٹنگ تیار کی گئی ہے۔سولر آربیٹر میں چھ کیمرے اور چار دیگر آلات موجود ہیں جو سورج سے نکل کر خلائی جہاز کے اوپر سے گزرنے والی گیس (پلازما) اور مقناطیسی فیلڈز کا جائزہ لیں گے۔امپیرئل کالج لندن کے پروفیسر ٹِم ہوربری کے مطابق سولر آر بیٹر کا مقصدیہ پتا لگانا ہے کہ سورج پر ہونے والے عوامل کا خلا میں ہونے والے عوامل سے کیا تعلق ہے ۔ان جگہوں کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کو سورج کے کافی قریب جانا پڑے گا اور وہاں سے نکلنے والے مادّوں اور مقناطیسی میدانوں کی پیمائش کرنی ہوگی ۔آلات کا یہ امتزاج اور اس کا منفرد مدار سولر آر بیٹر کو یہ سمجھنے کی طاقت فراہم کرے گاکہ سورج کے قطبین کی نگرانی کرسکے ۔یونیورسٹی آف لندن کی پرو فیسر لوسی گرین کا کہنا ہے کہ اب تک ہمیں یہ تفصیلی طور معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ سورج کا 11 سالہ دورانیہ کیوں ہے ؟جس دوران اس پر ہلچل میں اضافہ اور کمی ہو تی ہے۔
اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں کئی مشاہدات کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ مشاہدات سورج کی قطبین کے قریب کرنے کی ضرورت ہے ۔سائنس داں مکمل یقین کے ساتھ تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں کیا نظر آئے گا ،مگر اُمید ہے کہ جب سورج پر ہونے والی ہلچل پر تبدیلی آنے والی ہوگی تو سولر آر بیٹر کو پہلے ہی اس کے اشارے مل جائیں گے ۔یورپی خلائی ادارے کے پروجیکٹ سائنس داں ڈاکٹر ڈینیئل میولر کو لگتا ہے کہ سورج کےقطبین خطے میں اگلے شمسی دورانیے کے آثارپہلے سے نظر آجائیں گے ۔یہ مقناطیسی میدانوں کے چھوٹے چھوٹے گچھے ہیں ۔اُمید کی جارہی ہے کہ یہ دہائی شمسی فزکس میں ترقی کے حوالے سے ایک سنہری دہائی ہو گی ۔حالاں کہ یورپ کے سولر آر بیٹر سے قبل امریکا پارکر خلائی جہاز لانچ کر چکاہے ،جس کے کئی مقاصد اس نئے خلائی جہاز جیسے ہی ہیں اور اس میں کچھ آلات بھی اسی قسم کے ہیں ۔