چائنہ سے پھیلنے والا خطرناک کورونا وائرس دنیا بھر میں اپنی تباہ کاریاں جاری رکھے ہوا ہے، بات ہے 31 دسمبر 2019 کی جب چین کے شہر ووہان سے ایک شخص میں اس بیماری کی تصدیق ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے محض دو ماہ میں اس وائرس نے چائنہ کے متعدد شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ابتدا میں کہا جارہا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا اس سارس بیماری کا تسلسل ہے جو چین سے 2003 میں پھیلی تھی، سارس کے مریضوں کو بھی سانس کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا، رپورٹ کے مطابق اس بیماری میں لگ بھگ 26 ممالک میں 8100 متاثر ہوئے تھے اور 774 افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔
کورونا وائرس نے اب تک 195 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس وبا سے 20ہزار سے ذیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 4 لاکھ 51 ہزار سے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں اور 1 لاکھ 12ہزار افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اس عالمی وبا سے اب تک سب سے ذیادہ متاثر اٹلی ہوا ہے جہاں 7 ہزار 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً 74 ہزار متاثر ہیں۔ دوسرے نمبر پراسپین متاثر ہوا ہے جہاں اب تک 3 ہزار 434 افراد ہلاک اور 47 ہزار سے زائد متاثر ہوئے ہیں جبکہ چین میں 3 ہزار 281 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 74 ہزار سے زائد افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، ایران اور فرنس اس بیماری میں پیش پیش ہیں۔
کورونا وائرس نے نہ صرف دنیا بھر میں ہلچل مچاہی ہوئی ہے بلکہ پاکستان کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے جبکہ پاکستانی عوام کا ردعمل اس بیماری کے حوالے سے کچھ ایسا خاطر خواہ نہیں ہے جیسا کہ باشعور لوگوں اور قوموں کا ہونا چاہیے۔ پاکستان میں کچھ دن پہلے تک اس بیماری کو یہودیوں کی سازش، بیرونی طاقتوں کا ایجنڈہ اور نہ جانے کیا کچھ کہا جاتا رہا تھا ابتداء میں تو لوگ اس بات سے ہی انکاری تھے کہ یہ کوئی جسمانی بیماری ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا تھا جس کے بعد سندھ سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں احتیاط کے پیش نظر اسکول بند کردیئے گئے تھے۔ کورونا وائرس نے ملک میں سب سے ذیادہ متاثر سندھ کو کیا ہے جہاں اس مہلک بیماری سے 413 افراد متاثر ہوئے ہیں، ایک جاں بحق اور 14 صحت یاب ہوئے ہیں، پنجاب 323، بلوجستان میں119، خیبر پختوانخوا میں121، اسلام آباد میں 16، گلگت بلتستان میں 84 اور آزاد کشمیر میں ایک کورونا کا کیس سامنے آیا ہے، پورے ملک میں1077 افراد اس مہلک بیماری میں مبتلا ہیں، 8 افراد جاں بحق اور اب تک 22 افراد اس بیماری کو شکست دے سکے ہیں۔
میرے ایک دیرینہ دوست نے بتایا کہ جب مصافحہ نہ کرنے کی باتیں میڈیا میں آئیں اور ڈکٹرز کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ اس سے گریز کیا جائےتو کچھ لوگوں نے اس پر مذمت اور بحث کرنا شروع کردی کہ یہ آپ غلط کررہے یہ اسلام کے منافی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ارے بھائی آپ اسلام کی باتیں کرتے ہیں اسلام کا مرکز ویران ہے، سعودی عرب میں عمرہ نہیں ہورہا، نماز جمعہ کے اجتماعات منسوخ کردیئے گئے ہیں۔ کیونکہ بے احتیاطی کی وجہ سے یہ بیماری مسلسل بڑھ رہی ہے۔
مگر اب کچھ لوگوں میں کسی حد تک شعور بیدار ہوا ہےکہ یہ کوئی امریکی، یہودیوں یا پھر طاقت وار ملکوں کی سازش نہیں ہے بلکہ ایک بیماری ہےاور اب اس سے نمٹنا ضروری ہے۔ بلاشبہ ہمارے ہر شعبہ میں شعور کا فقدان ہے، ہماری قوم ٹریفک سنگل پر نہیں رکتی جب تک وہاں کوئی ٹریفک پولیس والا نہ کھڑا ہو، اس طرح کی بہت ساری چیزیں جو ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم انتہائی غیر منظم قوم ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک میں فوج کو تعینات کردیا گیا ہے جبکہ چاروں صوبے لاک ڈاؤن کا اعلان کرچکے ہیں۔ مگر ہم شہری تو آزاد پرندے ہیں، جب جہاں چاہیں اڑ جاتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں نے شہریوں کی بہتری کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا بہ حیثیت ایک زمہ دار شہری ہونے کے ہمیں اس فیصلے کا خیر مقدم کرنا چاہئے تھا مگر اس کے برعکس ہم انتہائی غیر زمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں اور اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے کورونا وائرس کے پیش نظر اسکول بند کیے تو شہریوں نے سمندر، ریسٹورانٹس اور پارک آباد کردیئے۔
چین، جاپان اورجنوبی کوریا نے اگر بیماری پر کافی حد تک کنٹرول کیا تو اس کی بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ وہاں کی عوام نے حکومتی احکامات پر عمل کیا اور ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیا جو کہ بہت ہی مثالی تھا۔ وہاں اگر پابندی لگی ہے تو اس کا مکمل احترام کیا ہے۔ مگر پاکستان میں لاک ڈاؤن کی کیفیت میں بھی لوگ گھروں سے باہر گھوم رہے ہیں، اسی کے پیش نظر کل اورآج ملک کے مختلف شہروں سے گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ یقیناً مسئلے مسائل سب کے ساتھ ہوتے ہیں، کیا یہ مسائل چین، جنوبی کوریا اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ نہیں تھے؟ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بالر شعیب اختر کا کہنا تھا کہ چائنہ کا مقابلہ کورونا سے تھا لیکن ہمارا مقابلہ پہلے جہالت سے ہے۔
اگر چہ حکومت پاکستان کا ردعمل اس وبا کے حوالے سے کچھ خاطر خواہ نظر نہیں آیا مگر صوبائی حکومتیں بالخصوص سندھ حکومت نے اس مہلک بیماری سے نمٹنے کے لیے بہترین کارگردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو اب ہم پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ بہ حیثیت منظم قوم ہم بھی حکومت کے احکامات پر عمل کریں اور خود کو گھروں تک محدود کریں- کسی وبا کو شکست دینے میں حکومت کے ساتھ عوام کو بھی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے، ہمیں خود ہی سوچنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور اس کا نقصان ذیادہ کس کو ہوگا۔ ہمیں اٹلی، چین، فرانس، اسپین، امریکا، برطانیہ اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملکوں کی موجودہ صورتحال دیکھ کر سبق سیکھنا چاہیے، مذکورہ بالا ممالک صحت اور ترقی کے معاملے میں ہم سے بہت آگے ہونے کے باوجود بھی انتہائی سنگین صورتحال سے دوچار ہیں مگر ہم پتا نہیں کس خام خیالی میں مبتلا ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ اگر عوام کی جانب سے لاک ڈاؤن کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو کرفیو نافذ کرنا پڑے گا۔ صوبائی وزیر کی یہ بات تو بلکل درست ہے کہ ہم نے اس مہلک بیماری کورونا وائرس کو اب تک سنجیدہ لیا ہی نہیں ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ اس بیماری کو کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن اور دوسرے ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و جبر سے جوڑرہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے غیر مسلمانوں پر عذاب نازل ہوا ہے۔ ارے بھائی اگر یہ عذاب غیر مسلم پر ہے تو ایران اور پاکستان سمیت دیگر اور مسلم ممالک میں کیوں پھیلا؟ اسلام کا مرکز آج کیوں ویران ہو گیا ہے، اسے مذہب کا سہارا بنا کر نظر انداز نہ کیا جائے تو بہتر ہے ورنہ اس مہلک بیماری کو مذہب، نسل و روپ نہیں دیکھنا! کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بیماری کا ذیادہ اثر ان پر ہوتا ہے جن کی عمر 50 سال سے اوپر ہے جبکہ اٹلی، امریکا، فرنس اور دیگر ممالک میں مرنے والوں میں نواجونوں کی بھی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس مہلک بیماری کی روک تھام کے لئے اب تک کوئی دوا ہی دریافت نہیں ہوئی ہے اگرچہ پوری دنیا اس کی دوا دریافت کرنے میں لگی ہوئی ہے مگر تاحال کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں صرف احتیاط کے زریعے ہی اس کی سنگینی کو کم کیا جا سکتا ہے اگر ان تمام تر حقائق کو جاننے کے بعد بھی اس عالمی وبا کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو پھر اس قوم کا تو ﷲ ہی حافظ ہے!۔