• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کو ماضی میں ہیضہ اور طاعون نے بھی پریشان کیا

کراچی میں کورونا کو قابو کرنے کے لیے کاروبار زندگی کا پہیہ روک دیا گیا ہے، تاریخ پر نظر ڈالیں تو ماضی میں ہیضہ اور طاعون بھی شہر کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔

1843 میں کراچی پر یونین جیک لہرایا تو سامراج کے خلاف پہلی مزاحمت آب و ہوا نے کی اور برطانوی فوجی ہیضے کا شکار ہونے لگے، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے وبا کا روپ اختیار کرلیا۔

1846 میں شدت اتنی بڑھی کہ 7ہزار زندگیاں لقمہ اجل بنیں، قائداعظم محمد علی جناح کی والدہ اور پہلی اہلیہ کا انتقال بھی انہی وبائی ایام میں ہوا۔

برطانوی فوجیوں کے علاج معالجے کے لیے جو ڈسپنسری بنائی گئی اسے بعد میں عوام کے لیے وقف کردیا گیا، اسی لیے اسے آج سول اسپتال کہا جاتا ہے۔

مورخین نے لکھا کہ برٹش راج کے دوران ملیریا، چیچک اور جلدی بیماریاں عام ہونے لگیں تو 1879 میں لازمی ٹیکہ ایکٹ نافذ کردیا گیا۔

1896 میں کراچی میں طاعون نے زور مارا، متاثرین کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی جنہیں لیاری، رنچھوڑ لائن، رام باغ اور سول لائن میں قرنطینہ کیمپس تک محدود کردیا گیا۔ بالآخر 1900 میں اس پر قابو پالیا گیا۔

ان دنوں بھی شہر میں کورونا پر قابو پانے کے لئے سندھ وبائی امراض بل نافذ ہے، جبکہ لاک ڈاؤن کرکے اس وبا کی پیش قدمی کو روکا جارہا ہے۔ 

تازہ ترین