کورونا نے جہاں انسانی سماج کو تبدیل کیا ہے وہیں انسانوں میں حوانیت کو بھی فروغ دیا ہے ماسک ،سینیٹائزر،دستانوں کی ذخیرہ اندوزی اور ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، سائبر کرائم میں اضافہ ( کیونکہ اب شکار یار زیادہ آسانی سے میسر ہیں اور لوگ فرصت کے اوقات میں صرف انٹرنیٹ پر انحصار یار کیے ہوئے ہیں ہیں) کس زمرے میں آتا ہے؟ اگر واقعی کرونا کا کا خوف انسانوں پر طاری ہے تو کیا ذخیرہ اندوزی کرنے والے اور سائبر کرائم کے مرتکب انسان نہیں ہیں؟ کہیں اسے انسانی سازش قرار دیا جا رہا ہے ہے تو کہیں قہر الہی ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سازش انسانی ہی قہر الہی میں تبدیل ہو گئی ہو۔ اس کا فیصلہ آنے والا کل ہی کرے گا ۔ کرونا کی بدولت جہاں ایک طرف بہت سے کاروبار میں نقصان ہو رہا ہے- چیخ چیخ کر بتایا جارہا ہے کہ کہ عالمی معیشت نقصان کا شکار ہے- یومیہ اتنے ڈالرز کا خسارہ ہو رہا ہے- لیکن دوسری طرف بہت سے کاروبار عروج کی طرف گامزن ہیں- ان کی مانگ میں مسلسل اضافے کی وجہ سے یہ کاروبار منافع بخش ہوتے جا رہے ہیں - جس میں ماسک، وینٹی لیٹر، سینیٹائزر، پیشنٹ بیڈ ، طبی عملے کے تحفظ کے آلات، ملیریا اور بخار کی دوائیں اور اسی طرح کی دوسری اشیاء شامل ہیں- ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے پیداوار میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے تو کیا یہ پیداوار میں اضافہ کرنے والے رضاکارانہ کام کر رہے ہیں یا ان کے پیش نظر منافع ہے؟ یقینا منافع ہی وہ محرک ہے جو پیداوار میں اضافہ کرواتا ہے ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سے وائی فائی اور انٹرنیٹ کے استعمال میں بے انتہا اضافہ ہوچکا ہے - اسی وجہ سے ویڈیو گیمز ز کا استعمال بھی بہت بڑھ چکا ہے اس اضافے کے پیش نظر اب نئے گیمز بنائے جارہے ہیں- تو کیا بغیر منافع کے نئے گیمز آرہے ہیں ؟ اسی طرح نیٹ فلکس، یو ٹیوب، یوٹرن کی طرح ساری سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو منافع کس کے کھاتے میں ؟ اسی طرح آن لائن میٹنگز اور آن لائن کلاسز کے استعمال سے گوگل کلاس روم ، زوم اور اسی جیسی ایپس کا استعمال بھی بڑھ چکا ہے ۔کسی کو مالی منفعت حاصل ہورہی ہے- یعنی اگر پہلے سے چلنے والے کاروبار میں وقتی بحران ہےتو بہت سب سے کاروبار میں ابھار بھی ہے۔سب سے بڑھ کر حیران کن رویہ ہمارے ملک میں حکومت اور عوام کا ہے- کسی نے کرونا مرض کے بارے میں نہ ہی تحقیق کی، نہ ہی تجربہ کیا ، نہ مشاہدہ کیا۔ لیکن سب کے سب ماہرین کرونا بنے ہوئے ہیں اور اتنے وثوق سے پیغامات ادھر سے ادھر کر رہے ہیں اور ساتھ میں دھمکاتے بھی ہیں کہ اگر عمل نہ کیا تو نقصانات کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ یہ تو عام لوگوں کا رویہ ہے - خواص کا رویہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔ اس وقت سب کی توجہ حکومتی اقدامات کی طرف ہے یعنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو منصوبہ سازی اور اس پر عملدرآمد کرنا ہے ۔ لیکن خواص کا اصرار زری پالیسی پر ہے کہ شرح سود کو کم کیا جائے- کوئی پوچھے کہ ایک طرف تو رونا ہے کہ کرونا نے کاروبار ہی بند کروا دئیے تو اب شرح سود کم ہو یا زیادہ کاروبار کے لیے ادھار لینے کون آئے گا ؟ سارا کھیل تو اب بچت کاروں اور سٹہ بازوں کا ہے جس کا تحفہ سونے اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ یعنی یہ سٹہ باز اتنے مضبوط اعصاب اور اختیارات کے مالک ہیں کہ صرافہ بند ہونے کے باوجود وہ سونے کے کاروبار کو بڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف ڈالر کی یکطرفہ تجارت کو بھی۔ تمام تجارت بند، کاروبار اوردوکانیں بند، امریکی معیشت بدحالی کا شکار لیکن اس کی کرنسی کی مانگ میں پاکستان میں اضافہ… وفاداروں اور ذہنی غلاموں کی انتہائی قسم دیکھنی ہو تو یہاں وافر مقدار میں موجود ہیں ۔ دوسری طرف لاک ڈاون کی وجہ سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی مالی حالات کا سب کو ادراک ہے اور لوگ ان کے دکھ میں ان سے زیادہ شریک ہیں کہ وہ دوسروں کو للکارے جا رہے ہیں کہ عمرہ اور حج کرنے سے سے بہتر ہے کہ اس رقم کو غریبوں کی مدد میں استعمال کیا جائے - لیکن کوئی امریکہʼ برطانیہ اور یورپ میں گرمیوں کی چھٹی گزارنے نے والوں کو غیرت نہیں دلارہا ! اداکار، گلوکار، اور سماجی کارکن پیسے جمع کر نے اور غریبوں کی مدد کرنے کے سائنسی طریقے بتا رہے ہیں لیکن عمل ندارد ۔ جو تھوڑا بہت بہت عمل کر رہے ہیں وہ اس سے زیادہ اپنی سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر کروا رہے ہیں- حالانکہ حکم ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبرنہ ہو۔
minhajur.rab@janggroup.com.pk