دنیا کا کاروبارِ زندگی عملاً بند ہو چکا ہے، ہر طرف خوف و ہراس کی فضا اور نفسا نفسی ہے۔ ہزاروں افراد جان سے جا چکے، تقریباً آٹھ لاکھ کورونا کا شکار ہو چکے، ساڑھے تین ارب انسان لاک ڈاؤن میں پڑے ہیں، خدشہ ہے کورونا سے آدھی دنیا متاثر ہو سکتی ہے، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن خوف کا اظہار کررہی ہےکہ دنیا میں ڈھائی سے تین کروڑ لوگ بےروزگار ہو سکتے ہیں۔ امیر اور طاقتور ملکوں کی اسٹاک مارکیٹس بدترین تاریخی مندی کا شکار، عوام ذہنی اذیت میں مبتلا اور فضائی آپریشن منقطع ہونے سے تمام ملکوں کے آپس میں رابطے بند ہیں۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کے مسلسل پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی پر دنیا میں شدید ترین غذائی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے conspiracy theoriesکچھ بھی ہوں بلاشبہ اب یہ طاقتور وائرس زندگیوں کو نگلنے کا بڑا اژدھا بن چکا ہے۔ حیران کن طور پر اس سنگین حقیقت کو نظرانداز کرنے میں میرے وطن کے باسی سرفہرست رہے ہیں، کوئی اس وائرس کو سنجیدہ لینے کو تیار ہی نہیں۔ اس ملک میں عجیب و غریب منطق اور شور شرابا اس بحث کا ہے کہ یہاں حکومت کون چلا رہا ہے؟ احکامات کون دے رہا ہے؟ اقدامات کون اٹھا رہا ہے؟ اصل ذمہ دار کون ہے جس کا کل گریبان پکڑنا ہے تو فضول اور بےتکے سوالوں کا اس جواب کے بعد جواز ہی ختم ہو جاتا ہے جو لاک ڈاؤن کی مخالفت کے باوجود عملی نفاذ کی صورت میں لگا کر دیا جا چکا ہے۔
وزیراعظم لاک ڈاؤن نہ کرنا اب بھی فہم و فراست سمجھتے ہیں کیونکہ دہاڑی دار اور خوانچہ فروش بےروزگار ہو جائیں گے حالانکہ حقیقت یہ ہےکہ جب فیکٹریاں، کارخانے، تعلیمی ادارے، نجی دفاتر اور تعمیراتی کام ہی بند ہیں، جب سفر کرنے والے اور سڑک کنارے کھڑے ہوکر کھانے والا ہی کوئی نہیں تو انہیں مزدوری کہاں سے ملےگی؟ ان مجبوروں کی اس مشکل میں گھر پر مدد فراہم کرنے اور محض تین ہزار ماہانہ دینے کا اعلان دراصل اپنی ذمہ داریوں سے راہِ فرار ہے۔ وفاق اور صوبےاپنی اپنی منطق چلارہےہیں کیونکہ ملک کا چیف ایگزیکٹو کمانڈ کرنے کو تیار نہیں۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ تمام بےاحتیاطیوں کے باوجود پاکستان دنیا میں وائرس انفکٹیڈ ملکوں کی فہرست میں سب سے نیچے ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے موجودہ اور ماضی کے حکمران مطمئن ہیں کہ یہ ان تک نہیں پہنچے گا۔ یہ رویہ برقرار رہا تو آنے والوں دنوں میں خدانخواستہ ایک بڑی آفت بھی بن سکتا ہے۔ جغرافیائی حالت کو دیکھتے ہوئے تو دو ماہ پہلے ہی ہنگامی حالت کا نفاذ، ٹرانسپورٹ، ریل اور فضائی نظام روک دیا جاتا تو موجودہ حالات سے بھی بچا سکتا تھا بالخصوص جب ہزاروں پاکستانی طالب علموں کو چین سے آنے سے روکا گیا تو سعودی عرب اور ایران سمیت دیگر ملکوں سے زائرین کو بھی روکا جاتا، لانا ہی تھا توحفاظتی اور قرنطینہ کےانتظامات کرتے۔ ایک اہم حکومتی شخصیت الزام لگاتی ہے کہ ہر سرحد پار سے آنےوالے کا ڈیٹا ’’آپ‘‘ کے پاس تھا، ان زائرین کو گھروں سے فوری لاکر ٹیسٹ کیلئے اسپتالوں میں منتقل کرنا مشکل نہ تھا۔ غیرذمہ داری کرکے وائرس پھیلایا گیا اب اس پر قابو پانا ہی بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ عوام کا اپنے وزیراعظم سے مطالبہ ہے کہ اس سازش کی ضرور تحقیقات کرانی چاہئے۔ چین اچانک کورونا وائرس کی آفت کا شکار ہوا مگر حقیقت میں گھبرایا نہیں، وائرس کی متوقع تباہی کا اندازہ کیا اور فوری جامع حکمتِ عملی بنا لی۔ ووہان شہر اور پھر پورے صوبے کو لاک ڈائون کیا، 60لاکھ افراد کو قرنطینہ کیا، گھر گھر جاکر شہریوں کو چیک کیا، 7دنوں میں مخصوص اسپتال کھڑا کیا، ہنگامی طور پر کروڑوں ماسک، گلوز اور ٹیسٹ کٹس تیار کیں، یوں حفاظتی تدابیر اور موثر عملی پلان سے لاکھوں متاثرین کی جانیں بچالیں۔ آج احتیاط کرنے والے چین میں نئی زندگی کا آغاز کر رہے ہیں، وہی چین اپنے دوست پاکستان کی مدد کیلئے حفاظتی سازوسامان اور ڈاکٹرز کے ساتھ بھی پہنچ چکا ہے۔ دوسری طرف نگاہ اٹھائیں تو غیرسنجیدگی سے چینی وائرس کا الزام لگانے والا امریکہ جیسا بااثر اور طاقتور ملک کورونا وائرس کے متاثرین میں پہلے نمبر پر پہنچ چکا ہے، اٹلی، اسپین اور فرانس سمیت خوشحال ملکوں میں آج موت کا راج ہے کیونکہ وہاں اب احتیاط کا وقت گزر چکا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں، اپوزیشن اور قوم کو فوری طے کرنا ہے کہ اب بھی کنفیوژن میں رہ کر تاخیری فیصلوں سے ابدی نیند سونا ہے یا مسلسل احتیاطی تدابیر، صفائی و ستھرائی اور بہتر مشترکہ حکمتِ عملی سےنئی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔ گھروں پہ رہ کر رب العالمین سے معافی اور مدد طلب کرنی ہے یا چوک چوراہوں اور عبادت گاہوں میں اجتماعات سے انفیکشن کے پھیلاؤ کا سبب بننا ہے۔ blessing in disguiseکے مصداق ہر مشکل اور مصیبت رحمت بن سکتی ہے مگر ان کیلئے جو اس حقیقت کو دیکھ اور جان سکیں، بات مختصر، آسان اور سمجھنے والی ہے کہ آئندہ 15سے 30دن از خود قرنطینہ اختیار کرنے والے ہی آج اس ٹھہری اور سہمی ہوئی دنیا کی نئی شروعات دیکھ سکیں گے۔ جی ہاں وہ دنیا، جو فضائی آلودگی کے پھیلاؤ سے محتاط ہوگی، جو صحت و تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کیلئے زیادہ مستعد ہوگی، جو غریبوں اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی ضامن ہوگی، جو مشترکہ معاشی منصوبوں میں شراکت دار ہوگی۔