• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب کے نام پر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جیو اور جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن گزشتہ 20دنوں سے پابندِ سلاسل ہیں اور اُن کی ضمانت کی درخواست پر سماعت 2اپریل تک ملتوی کردی گئی ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی عالمی، صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مذمت کررہی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر برائے ایشیا بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اختلافِ رائے تیزی سے پھیل رہا ہے اور جو بھی حکومت پر تنقید کرتا ہے، اسے نشانہ بنایا جاتا ہے، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اس کی تازہ مثال ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان میں تنقیدی رائے پیش کرنا یا اختلافِ رائے رکھنا ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ اِسی طرح امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے بھی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی کے مالک کی گرفتاری پر تشویش ہے جبکہ دیگر عالمی تنظیموں نے بھی میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے حوالے سے گزشتہ چند ماہ سے ایسی اطلاعات آرہی تھیں کہ حکومت، ان کو گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی وجہ جنگ گروپ کی حکومت پر تنقید تھی۔

عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل اکثر اپنی تقریروں میں واضح طور پر اس بات کا برملا اظہار کر چکے تھے کہ اگر وہ برسر اقتدار آئے تو میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کریں گے۔

حکومتی وزرا بھی کئی مواقع پر اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ وزیراعظم، میر شکیل الرحمٰن سے خوش نہیں جس کی بڑی وجہ گروپ سے منسلک کچھ سینئر صحافیوں اور ٹی وی اینکرز سے حکومت کے اختلافات تھے اور حکومت کئی مواقع پر میر شکیل الرحمٰن کو یہ عندیہ دے چکی تھی کہ وہ حکومت پر تنقید کرنے والے اِن صحافیوں کو لگام دیں مگر انہوں نے حکومت کی کسی دھمکی میں آئے بغیر حق اور صداقت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور بالآخر حکومت نے جس بھونڈے طریقے سے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا، اِس سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر حکومت شدید تنقید کا نشانہ بنی۔

حالیہ برسوں میں ملک میں اختلافِ رائے رکھنے والے افراد کے خلاف گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ جنگ گروپ کے ساتھ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں نے جنگ گروپ کو حق اور سچ لکھنے پر انتقام کا نشانہ بنایا اور اخبارات پر سختیاں اور پابندیاں عائد کیں۔ پاکستان کی میڈیا کی تاریخ میں میر شکیل الرحمٰن کسی صحافتی ادارے کے تیسرے ایڈیٹر انچیف ہیں جنہیں آزادیٔ اظہار رائے کی پاداش میں پابند سلاسل کیا گیا ہو۔

اس سے قبل جنرل ایوب خان کے دور میں آغا شورش کاشمیری اور یحییٰ خان دور میں الطاف گوہر کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ میر شکیل الرحمٰن کے والد مرحوم میر خلیل الرحمٰن بھی برطانوی راج میں سچ لکھنے پر ماضی میں جیل جا چکے ہیں مگر پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جمہوری حکومت میں کسی صحافتی ادارے کے سربراہ کو گرفتار کیا گیا ہو۔

نیب جو احتساب کے نام پر قائم ہوا، اب تک ادارے کے 8سربراہان آئے اور چلے گئے جن کے نام سے بھی آج کوئی واقف نہیں۔ حالیہ دنوں میں یہ ادارہ حکومتی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائے جانے پر شدید تنقید کی زد میں ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ تاریخ انسان کو اچھے اور برے دو ناموں سے یاد رکھتی ہے، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم تاریخ میں کس جگہ اور کس نام سے یاد رکھے جائیں۔ اسی طرح تاریخ ظلم کے سامنے سرنگوں نہ ہونے والوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔

اقتدار کا ہما کبھی کسی کے کاندھے پر ہمیشہ نہیں بیٹھتا، ہمارے سامنے ایک سابق چیف جسٹس کی مثال موجود ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے باعث آج کل شدید تنقید کی زد میں ہیں جو ہمارے لئے سبق آموز ہے۔ آج اگر ہم طاقت کے نشے میں لوگوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائیں گے تو کل تاریخ کا مورخ ہمیں اچھی صف میں شامل نہیں کرے گا۔

گزشتہ روز لندن میں جیو کے صحافی مرتضیٰ علی شاہ سے گفتگو ہوئی جو میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے بعد سے نہایت سرگرم ہیں اور یورپ اور امریکہ میں ان کی گرفتاری کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کیخلاف ہالی ووڈ کے مشہور اداکار جارج کلونی کی اہلیہ بیرسٹر امل کلونی نے اقوامِ متحدہ میں پٹیشن دائر کی ہے جس میں گرفتاری کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیا گیا ہے۔

جارج کلونی کی اہلیہ جو خود بیرسٹر ہیں، کی لا فرم کا شمار انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کی صف اول فرمز میں ہوتا ہے۔ ارجنٹ پٹیشن میں اقوامِ متحدہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور نیب پاکستان میں انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور میر شکیل الرحمٰن کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

اداکار جارج کلونی کی اہلیہ جو دنیائے شوبز کی مشہور شخصیت تصور کی جاتی ہیں، وہ جس دن اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے میں اس کیس کی سماعت پر حاضر ہوئیں تو دنیا بھر کا میڈیا میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو عالمی سطح پر اجاگر کرے گا جو حکومت اور نیب کی شرمندگی و تضحیک کا سبب بنے گا۔

ایسے میں جب پوری دنیا کورونا وائرس سے نمٹنے میں مصروف عمل ہے، حکومت پاکستان کی ترجیحات میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری ہے۔ کورونا وائرس کی موجودہ سنگین صورتحال کے پیش نظر میر صاحب کو مسلسل پابندِ سلاسل رکھنا اور انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا، ان کی زندگی کیلئے خطرات پیدا کررہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو فوراً رہا کیا جائے۔

تازہ ترین