محمد آدم خان
انشائیہ ادب کی ایک نہایت ہی لطیف صنف ہے۔کسی مضمون کوجب ایک خاص اندازمیں تحریرکیاجاتاہے ،جس کی بے ترتیبی کا اپنا ایک ربط ہوتا ہے اوربات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے بظاہر اسی بے ترتیبی سے وجودمیںآنے والی صنف کو، جس میں ایک شعوری ربط و تسلسل قائم رہتاہے، انشائیہ کہتے ہیں۔ اردوادب میں بہت سی اصناف،عربی ،فارسی اور مغربی ادب سے مستعار ہیں، جس طرح چراغ سے چراغ جلانے کی روایت بہت قدیم ہے،اسی طرح تحقیق وتنقیدکے ذریعے علم وادب ارتقاپذیررہتے ہیں،جس سے نت نئی چیزیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔
ایک اچھے انشائیہ کی پہچان یہ ہے کہ آپ اس کے مطالعے کے بعد کتاب کوچند لمحوں کے لیے بند کردیں گے اورانشائیہ میں بکھرے ہوئے بہت سے اشارات کا سہارا لے کر خود بھی سوچتے اورمحظوظ ہوتے چلے جائیں ۔
رسمی انداز جو انگریزی انشائیہ کی روح ہے اورقاری کودوسری دنیاکی سیر کراتا ہے وہ اردوزبان وادب میں کلی طورپر پیدانہ ہوسکا۔ اردوانشائیہ کے بے تکلف ،غیرآرائشی اورآزاد مزاجی کوآزمانے کے بجائے عربی فارسی اورترکی زبانوں کی انشاپردازی اور ان زبانوں کے اسلوب کوزیادہ قبول کیاگیا،چنانچہ مصنف اورقاری کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل رہی۔
اردومیں مضمون انگریزی کے’ Essay‘کا ہم معنی ہے، جبکہ انشائیہ کے لیے انگریزی میں لائٹ ایسّے(LIGHT ESSAY) کااستعمال ہوتاہے ۔ابتدا میں اردوکے مضامین ہی میں انشائیہ کی تلاش کی گئی ،جبکہ انشائیہ کاتعلق’’ لائٹ ایسے‘‘ سے ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اردوداں طبقے کا ذہن اپنی قدیم تحریروں کوانشائیہ سے کم سمجھنے پر تیارنہ تھے اوردوسری جانب کچھ افرد ایک عرصے تک انگریزی لفظ’ ایسے‘ (ESSAY)کے گرد ہی گردش کرتے رہے ۔بعض ناقدین نے انشائیہ کے بارے میں اردوکی اس قبیل کی تحریروں کوسامنے رکھتے ہوئے اُس کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاََپروفیسرنظیرصدیقی نے انشائیہ کی تعریف اس طر ح کی ہے :
’’ انشائیہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں حکمت سے لے کرحماقت تک اورحماقت سے لے کرحکمت تک ساری منزلیں طے کی جاتی ہیں‘‘۔
بہرحال مذکورہ تمام باتوں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مضمون سے ایک نئی صنفِ ادب کی ابتدا ہوئی ۔ مضمون سے انشائیہ بننے کا عمل ایسے ہی ہے، جیسے سیپ میں موتی کی پرورش کا عمل ۔
انیسویں صدی کے آخر اوربیسویں صدی کے آغاز کے بعد تخلیقی قسم کی جونثر لکھی گئی،اس میں مضمون نگاری کے متذکرہ رجحان غالب حیثیت رکھتے ہیں اور اس کا سلسلہ سرسید احمد خاں،علامہ شبلی نعمانی،مولوی نذیراحمد،میرناصرعلی دہلوی،محمدحسین آزاد ، مولاناالطاف حسین حالی اورعبدالحلیم شررسے لے کر سجاد حیدریلدم ،مہدی افادی،سجاد انصاری ، خواجہ حسن نظامی ،عبدالعزیز فلک پیما،نیاز فتح پوری،فرحت اللہ بیگ ،سعادت حسن منٹو اورپطرس بخاری تک پھلاہواہے۔ بعض ناقدین نے اس صنف ادب کے نقوش ملاوجہی کی کتاب ’سب رس ‘مرزا غالب کے خطوط اورمیرامن کی باغ وبہار میں دریافت کیے ہیں،توکچھ نے یہ خیال ظاہرکیاکہ جب اردوزبان میں لفظ انشا موجودتھا توانشائیہ کی صنف بھی موجودہوگی۔’’لائٹ ایسے‘‘ کے لیے انشائیہ کی اصطلاح سب سے پہلے ڈاکٹروزیرآغانے کی اوراسے برتا بھی ۔ اس کے فنی نمونے تخلیق کیے اوراسے ایک صنف ادب اورتحریک کی شکل دی،یہی وجہ ہے کہ اب ایک بڑاطبقہ عصری انشائیہ اورا س کی اصطلاح کو رائج کرنے والے ادیب کی حیثیت سے ڈاکٹروزیرآغا کوہی تسلیم کرچکاہے،انھیں ہی انشائیہ کی تحریک کا بانی شمارکرتاہے اور’خیال پارے ‘ کی اشاعت کوانشائیہ کا نقطۂ آغاز گردانتاہے۔
1961میں اردوانشائیوں کا پہلا مجموعہ ’خیال پارے‘ شائع ہوا تواس کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو ادب میں جدید’ انشائیہ‘ کی باقائدہ تحریک کا بھی آغاز ہوا۔ان کے نزدیک انشائیہ کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ انشائیہ شے یا مظہرسے چھپے ہوئے ایک نئے معنی کو سطح پر لاتاہے۔
ڈاکٹر جاویدوششٹ نےملاوجہی کواردوکا پہلاانشائیہ نگارتسلیم کیاہے۔اپنے اس دعوے کے اثبات کے لیے انھوں نے سب رس سے وجہی کے 61انشائیے ترتیب دے کرپیش کیے ہیں،اوراس طرح وجہی کواردوکااولین انشائیہ نگار اورانشائیہ کوایک دیسی صنف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’ اردوانشائیہ اپنی ایک انفرادیت رکھتاہے دورِسرسیدمیں انگریزی ادب سے ہمارے انشائیہ نے ضروراستفادہ کیا،مگریہ کہنا غلط ہے کہ اردوانشائیہ انگریزی انشائیہ سے آیاہے ،ہمارا انشائیہ کلیتاً ہماراانشائیہ ہے اورملاوجہی اردوانشائیہ کے باواآدم ہیں۔ جس وقت عالمی ادب میں انشائیہ کی صنف نے جنم لیاکم وبیش اسی وقت ہمارانشائیہ بھی عالم وجودمیںآیا۔‘‘
جن انشائیہ نگاروں نے بیسویں صدی میں اس فکروفن کووسعت بخشی ان میں قابل ذکرنام ،میرناصرعلی دہلوی،نیا زفتح پوری، سجاد حیدر یلدرم، منشی پریم چند، مولوی عزیز مرزا، سید احمد دہلوی، مولانا خلیق دہلوی ،سلطان حیدر جوش، مہدی افادی، سجاد انصاری، فلک پیماں، مولانا ابوالکلام آزاد ،خواجہ حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، کرشن چندر، اکبرعلی قاصد، مشتاق احمدیوسفی اورمجتبیٰ حسین وغیرہ کے ہیں۔
منشی پریم چندنے ناول اورافسانوں کے علاوہ چند مضامین بھی تحریرکیے ہیں جن میں انشائیہ کی بوباس نظرآتی ہے ۔وحیدقریشی نے ان کے ایک مضمون’ گالیاں‘کواپنی کتاب ’اردوکابہترین انشائی ادب‘ میں شامل کیا ہے ۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں :
’’یوں توگالیاں بکناہماراسنگھارہے،مگربالخصوص عالمِ غیض وغضب میں ہماری زبان جولانی پر ہوتی ہے۔ غصہ کی گھٹا سر پر منڈلاتی اورمنہ سے گالیاں موسلادھارمینہ کی طرح برسنے لگتی ہیں۔
’غبار خاطر‘مولانا ابوالکلام آزاد کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو 10اگست 1942 سے لے کر16 ستمبر 1943 تک زمانۂ قید میں مولانا حبیب الرحمان خاں شیروانی کو لکھے گئے تھے وصف نگاری بھی انشا پردازی کی ایک اہم صفت ہے ان خطوط میں انشائیہ کے ایسے عناصر موجود ہیں جو انشائیہ کے لیے بے حدضروری ہیں ملا حظہ کیجیے، آزاد کی وصف نگاری کا ایک شہ پا ر ہ :
’’ کوئی پھول یا قوت کا کٹورا تھا، کوئی نیلم کی پیالی تھی، کسی پھول پر گنگا جمنی قلم کاری کی گئی تھی، کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ برنگ کی چھپائی ہو رہی تھی، بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑگئی تھیں کہ خیال ہوتا تھا صناعِ قدرت کے مو ئے قلم میں رنگ زیادہ بھر گیا ہوگا ، صاف کرنے کے لیے جھٹکنا پڑا، اور اسی کی چھنٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں۔‘‘
خواجہ حسن نظامی اچھے اورمنفردانشاپردازتھے سیاسی لیڈربھی تھے اوربے باک مقرراورخطیب بھی ۔سی پارہ دل،بیگمات کے آنسو،غدردلی کے افسانے،مجموعہ مضامین حسن نظامی، طمانچہ بررخسارِیزید وغیرہ مشہورہیں۔ان میں خصوصیت کے ساتھ سی پارہ دل کو ان کے انشائیوں کا مجموعہ ہی خیال کرنا چاہیے۔جس میں جھینگرکاجنازہ ،الو ،دیاسلائی ،آنسوکی سرگذشت اور ’گلاب تمھاراکیکر ہمارا‘ وغیرہ جیسے معمولی اورغیر اہم موضوعات پرا نھوں نے جن فکر انگیز خیالات کوپیش کیا اور جس طرح نئے پہلوتراشے ہیں اور نیا زاویہ نظر پیداکیا ہے وہ بیحد اہم ہے اور انھیں انشائیہ کا بیش قیمت ذخیرہ تصورکیاگیاہے ۔
رشید احمدصدیقی کی مزاح نگاری، جن محاسن اورعناصرسے عبارت ہے، ان میں انشائیہ کی بھی کئی خصوصیات سمٹ آئی ہیں۔ان کے مضامین میں’’ارہرکا کھیت ،چارپائی ،علی گڑھ کا دھوبی وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔سیداحمدشاہ پطرس بخاری کی اس میدان میں واحد تصنیف ’پطرس کے مضامین‘ ہیں
مشتاق احمدیوسفی کا کمال یہ ہے کے عام سی غیر اہم بات کے نئے پہلویا زاویہ پرروشنی ڈال کراس کی جانب اشارہ کرکے ہمیں چونکادینا اورمعصومیت سے آگے بڑھ جانا۔یوسفی اِس عہد کے ان زندہ دل انشائیہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کے انشائے وسعت فکرمعلومات اورطنز ومزاح سے بھرے پڑے ہیں جن میں لطافت اوردلکشی کا وہ عالم ہوتاہے کہ پڑھنے والا ایک بار شروع کرکے پوری تحریر مکمل کیے بعیر دم نہیں مارتا۔
عہدزریں کا آغاز ڈاکٹروزیرآغا سے ہی ہوتاہے مذکورہ تمام ناموں میں وزیرآغاکانام انشائیہ کے اصول وضوابط متعین کرنے اوراس صنف کوبحیثیت صنف کے برتنے اوررائج کرنے کے حوالے سے یہ نام سب سے اہم نام ہے۔انھوں نے ہی انشائیہ کواس کی اصل پہچان دلوائی اورانشائیہ کو عصری بنیادوں پرگفتگوکا موضوع بنایا اس مقصدکے لیے’ انشائیہ کے خدوخال‘ کے عنوان سے ایک مکمل اورجامع کتاب تحریر کرکے انشائیہ کا دستورمرتب کیا اور خودبھی ان اصولوں کی بنیادپرانشائیہ تحریرکیے۔ ان کے انشائیوں کاپہلا مجموعہ خیال پارے کے نام سے منظرعام پرآیاجس میں 25 انشائیہ ہیں۔ ان میںحقہ پینا ،آزادی ،آندھی، اورپل وغیرہ ان کے اچھے انشائیے شمارے کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کی دوسری کتاب چوری سے یاری تک اوردوسراکنارہ بھی انشائیوں کا مجموعہ ہے اوربے حد مقبول ہیں۔’
ڈاکٹرانورسدیدنے اردوانشائیہ کومتعارف کروانے اوراس کی شناخت کے لیے جو خدمات انجام دیں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں گرچہ وہ بنیادی طورپرناقدتھے۔ان کی کتابیں خصوصاََ انشائیہ پران کی کتاب’انشائیہ اردوادب میں‘ان کی تخلیقی،تنقیدی اورتحقیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے ۔
احمدجمال پاشا بنیادی طورپرطنزومزاح کے آدمی تھے ان کا انشائیہ بھی طنزومزاح ہی کے بطن سے وجودمیںآتا ہے ۔ ان کے انشاےئے’ بلیوں کے سلسلے میں،شور ،ہجرت اوربے ترتیبی‘ وغیرہ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ انشاےئے یعنی عصری انشائیے کے قریب ترہیں۔اسی لیے انورسدیدلکھتے ہیں :
’’چنانچہ یہ کہنادرست ہے کہ طنزومزاح سے انشائیہ کی طرف پیش قدمی احمدجمال پاشاکاایک خوش آئند قدم ہے اوراس صنف میں چندعمدہ پارے پیش کرکے انھوں نے تھوڑے سے عرصے میں قابل فخرمقام حاصل کرلیا۔‘‘