• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر منیر الزماں منیر

جدیدیت ایک اصطلاح ہے جس کا چلن 1960 کے بعد ہوا ۔ عام طور سے جدیدیت کی تعریف تویہ ہے کہ یہ اپنے عہد کے مسائل یا اپنے عہد کی حسیت کو پیش کرنے کا نام ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پس منظر میں وجودیت کی فکری تحریک ہے اور سیاسی بنیادوں پر جدیدیت کی تحریک ، ترقی پسند تحریک کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئی ۔ ہر رجحان ابتداء میں انحراف ، بے سمتی اور تجرباتی دور میں ہونے کی وجہ سے خام کارانہ انداز رکھتا ہے ۔اردو شاعری میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کو مسلمہ طور پر جدید رجحانات کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بعض ناقدین کا یہ بھی خیال ہے کہ اردو ادب میں جدید دور کا آغاز لاہور میں منعقدہ اردو کی پہلی کانفرنس سے ہوتا ہے اور بعض کے خیال میں سرسید کی ’’علی گڑھ تحریک‘‘ نے جدید اردو ادب کی داغ بیل ڈالی ۔ بعض دانشوروں کےیہاں ’’ترقی پسند تحریک‘‘ کے آغاز یعنی 1936 ء کے بعد سے ہندوستانی شعراء کا مزاج بدلا اور بعض اہل قلم نے ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ سے اس کا رشتہ جوڑا۔ ان سارے حالات کی روشنی میں ہم جدید اردو ادب کے اولین معماروں اور علمبرداروں میں مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کو ہی تسلیم کرتے ہیں ۔ سرسید کی علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ شعراء سامنے آتے ہیں، جن کی مساعی نے اردو ادب میں آنے والے نئے ذہنوں کے ساتھ ساتھ اپنے ہم عصر قدآور ہستیوں کے قدامت پسند اور محدود رجحاناتی پردے اٹھا کر انھیں وسیع و عریض میدانوں کی سیر کرائی اور کھلی اور تازہ فضاؤں میں سانس لینے کی راہیں ہموار کیں ۔ آج کل کے ادیبوں کی ذمہ داری اپنے پیشتر یا کسی بھی زمانے کے ادیبوں ، شاعروں سے مختلف ہے ۔ یہی ذمہ داری کا مختلف ہونا جدید ادب کا جواز بھی ہے اور بنیاد بھی۔روایتی شاعری جس میں رومانیت کو مرکزیت حاصل ہے ، آج بھی دلوں کو گرماتی اور خوابیدہ ذہنوں کو بیدار کرتی ہے ۔ہر جدید شاعر کے یہاں اس رنگ میں دوچار نہیں بلکہ بے شمار اشعار مل جاتے ہیں ۔ لفظیات کی ترتیب اور اسلوب بیان پر اگرچہ کہ قدرت پائی جاتی ہے لیکن مفہوم کے پردے میں وہی بات نظر آتی ہے ، جو قدامت پسند شعراءکے یہاں ملتی ہے ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پرانے شعری مجسمے کو نیا لباس پہنا کر اور خوب سجا کر نئے روپ اور نئے رخ سے پیش کیا جارہا ہے جو قاری کوبراہ راست بھی اور بالواسطہ بھی متاثر کررہا ہے ۔ موجودہ شعری آہنگ چونکہ غنائیت کو راست پیش کرنا نہیں چاہتا اس لئے جدید استعاروں ، کنایوں اور تشبیہات ولفظیات کے ذریعے اپنا مدعا پیش کررہا ہے ،جس کو فوری سمجھنے سے عام قاری کا ذہن معذور ہے ۔روایتی شاعری اور فرسودہ شاعری دونوں میں فرق ہے ۔ جدید شعراء کے یہاں روایتی شاعری سے نہیں بلکہ فرسودہ شاعری سے بغاوت کا میلان نظر آتا ہے ،جو بے جان اور مہمل ہے اور جو جذبے اور احساس کی بیداری سے عاری ہے ۔ روایتی شاعری کے بعض مخصوص لفظیات جیسے عشق ، محبت ، دیدار ، آنسو ، وفا ، محبوب ، زلف ، انگڑائی ، نزاکت ، حسن ،گل و بلبل ، جنون ، قفس ، برق و آشیاں ، حسرت ، شراب ، جام ، مئے خانہ ، ساقی ، رند ، پژمردگی ، شکست ، احساس کمتری ، ناامیدی ، مایوسی ، شکوہ ، گلہ ، آہ ، نالے ،فغاں ، فریاد ، تنہائی ، چلمن ، پردہ ، نقاب ، کوٹھا ، زاہد ، آئینہ ، تصور ، خزاں ،بہار ، خار ، عکس ، دربار ، حرم سرا ، جبر حیات ، اکتاہٹ ، بے بسی ناکامی ، محرومی وغیرہ وغیرہ ۔آج کے جدید دور میں کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں شعراء کے سامنے زندگی کی قدر ، کھیت ، کھلیاں، کسان ، صنعتیں ، مزدور ، قید ، پھانسی ، بغاوت ، خون ، قتل جنگ ، سمندر ، طوفان ، ہل بان ، انقلاب ، چٹان ، آندھی ، موسم ، برسات ، بسنت ، سورج ، دھوپ ، آواز ، آگ ،سایہ ، عمارت ، شجر ، پتھر ، دیوار ، شہر ، جنگل ، ریت ، بازار ، سناٹا ، سائنس ، ٹیکنالوجی ، سیاست ، اولوالعزمی ،جواں مردی ، ارادہ ، قوت ، جرم ، سزا ، دار ، چیخ وغیرہ وغیرہ جیسے عنوانات ہیں ۔ آج کا جدید شاعر آگے بڑھنے کا عزم رکھتاہے ۔ ہر نیا ذہن بیداری کا درس لے کر اٹھتا اور آگے بڑھتا ہے ۔ وسیع عزائم ، بلند حوصلگی اور عصری شعور ان کے یہاں بہت زیادہ نظر آتا ہے ۔ اس کے باوجود بھی جدید شعراء نے سائنس اورٹیککنالوجی کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم مثلاً انتھراپولوجی اور سوشیالوجی وغیرہ سے خاطر خواہ اکتساب فیض نہیں کیا جتنا کرنا چاہئے تھا ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں کے جدید معمار اس کمی کو پورا کریں ۔جس طرح قدیم شاعری میں فرسودہ اور مہمل شاعری کی مخالفت کی گئی اسی طرح جدید شاعری میں بھی مخالفت کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ جدید ادب میں جدید لفظیات کے استعمال کے علاوہ بعض جدید اصناف کی ہیئتی ترکیبوں پر بھی اعتراض کیا جارہا ہے ۔ اعتراض اس بات پر نہیں کہ جدید شاعری کو جدید تر اور ترقی پسند نہیں ہونا چاہئے بلکہ اعتراض کا اصل مقصد یہ ہے کہ ترقی پسندی کا ہمارے جدید شعراء نے غلط مفہوم لیا ۔ ان اعتراضات کی روشنی میں دو الگ الگ تحریکیں اور ان سے وابستہ شعراء دو زمروں میں منقسم ہوگئے ،جس کی مثالیں ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کی شکل میں ہمارے سامنے آئیں ۔ مجموعی طور پر جدید شاعری کے میلانات کا ہر سمت سے پُر جوش استقبال کیا جانے لگا جو تھکے ہوئے ذہنوں کو بیدار کرنے میں بڑے ممد و معاون ثابت ہوئے ۔

نئے شاعر اور اس کے عصری شعور اور حرکیاتی پہلوؤں پر انیس ناگی نے اس طرح روشنی ڈالی ہے۔’’نئے شاعر کے لئے آمد اور آورد کے امتیازات ختم ہوچکے ہیں ، اس کے یہاں آمد ایک ڈھکوسلا ہے ۔ اس کی شاعری ، شعور کی پیداوار ہے ۔ وہ معاشرے کا ایک ذمہ دار رکن ہے اور اپنے اردگرد سائنسی دنیا میں حیرت انگیز تغیرات محسوس کررہا ہے ۔ اس کا شعور ہم عصر حالات اور واقعات کا احساس رکھتا ہے‘‘ ۔جدید شعراء میں بعض مخصوص مقامات پرانگریزی الفاظ کے استعمال کا رجحان بھی ہمیں ملتا ہے ۔اسی طرح اینٹی غزل کا رجحان بھی جدید شعراء کے یہاں ملتا ہے ۔ اینٹی غزل اور اس کے تجربے پر پروفیسر محمد عقیل رضوی نے اپنی رائے اس طرح دی ہے ’’پرانے الفاظ ، علائم ، تشبیہات ، استعاروں اور لہجے کی سطح مسلسل استعمال سے گھس کر چکنی ہوگئی ہے ۔ اس لئے وہ سطح جدید غزل کے لئے کارآمد نہیں ۔ جدید غزل کو اپنے تمام سانچوں اور وسیلوں کو بدل کر ایک نیاقالب بنانا ہے اور یہی قالب غزل کا نیا سانچہ اور جدید آہنگ ہوگا ۔ اس نئے آہنگ اور سانچے کو صحیح طور پر اپنانے کے لئے پہلے جدید غزل کو مروجہ رنگِ تغزل کی نفی کرنی ہوگی جیسے اینٹی غزل کا تجربہ کیاگیا‘‘۔

تازہ ترین