• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’پھیل پڑی ہے خرابی جنگل اور دریا میں لوگوں کے ہاتھ کی کمائی سے،چکھانا چاہیے، انہیںکچھ مزا ان کے کام کا،تاکہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(سورۃالروم،۴۱)

(ترجمہ)’’اور جوپڑے تم پر کوئی سختی سو وہ بدلہ ہے، اس کا جوکمایا ہے تمہارے ہاتھوں نے،اور وہ معاف کرتا ہے بہت سے گناہ۔اور تم تھکا دینے والے نہیں بھاگ کر زمین میں،اور کوئی نہیں اللہ کے سوا کام بنانے والااور نہ مددگار۔‘‘(سورۃالشوریٰ،۳۰)

کروناوائرس کے عالم گیرپھیلائو کے حوالے سے جو تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے اور اس تشویش میں روزافزوں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے،اس عالمگیرموذی مرض میں صرف عوام ہی نہیں، بلکہ اونچے طبقے کے لوگ ،حتیٰ کہ حکمراں بھی مبتلاہورہے ہیں۔ اس وقت ہرطرف کروناوائرس موضوع بناہوا ہے ،کوئی اس کی تباہ کاریاں بتا رہاہے تو کوئی اس کے اثرات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر بتا رہاہے،یہ سب اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے لیکن یہ تشخیص مادی ہے،اور اس سے حفاظت کے لیے بھی زیادہ تر مادی احتیاط پر تکیہ کیا جارہا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماراعقیدہ ہے کہ یہ عذابات اور آفات وبلیّات بلاسبب نہیں ،ظاہری اسباب کی دنیا میں کچھ بھی ہو، باطنی اسباب بھی یقینی ہوتے ہیں۔ان حالات وآفات میں اصل ذات مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ ہیں ۔جب قومیں سرکشی پراترآئیں،جب اجتماعی ظلم بڑھ جائے اور اس پر اقوام عالم بجائے مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے کے ظالم کے ساتھ کھڑی ہوجائیں، اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے ظلم وتعدی کوہوتا دیکھیں اور خاموشی اختیار کرلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کاغضب نازل ہوتاہے۔ اسی طرح مسلمان …جنہوں نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہدوپیمان میں باندھاہے ،وہ باربار اس عہدوپیمان کو توڑنے لگیں،شعائراللہ کو پس پشت ڈال دیں،اس پر توبہ واستغفار کی بجائے پوری ڈھٹائی کے ساتھ نافرمانی اور شریعت سے روگردانی پر کمربستہ رہیں تو بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کاکوڑا حرکت میں آتاہے ۔قرآن وحدیث کا مطالعہ کر لیں ،کتنی ہی قوموں کے احوال ذکر کیے گئے ہیں کہ جب انہوں نے حق اور ہدایت کے راستے کوچھوڑا تو تباہی ان کا مقدر بنی،مختلف جان لیوابیماریاں نازل ہوئیں،زلزلوں،آندھیوں، اور قحط کے ذریعے انہیں عذاب دیا گیا۔آج بھی اگر وہی اسباب پائے جائیں گے تو اسی طرح کے عذاب نازل ہوسکتے ہیں ۔ نبی صادق ومصدوق رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے:

’’حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا: جب محصولات کوذاتی دولت،امانت کو غنیمت،اور زکوٰۃ کوتاوان سمجھاجانے لگے گا،غیر دینی کاموں کے لیے دین کاعلم حاصل کیاجائے گا،مرد اپنی بیوی کی فرماںبرداری کرے گا اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے گا، اور پنے دوست کوقریب کرے گااور اپنے باپ کو دور کرے گا،مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی،قبیلے کابدکار شخص ان کاسرداربن بیٹھے گا،اور کم تر آدمی قوم کالیڈر(یعنی حکمران )بن جائے گا،اور آدمی کی عزت محض اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی،گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کاسامان عام ہوجائے گا۔،شرابیں پی جانے لگیں گی،اور بعد والے لوگ پہلے والے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کرنے لگیں گے، سو اس وقت سرخ آندھی،زمین میں دھنس جانے ،شکلیں بگڑ جانے،آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتارعذابوں کا انتظار کرو،یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے یوں ظاہر ہوں گی جس طرح کسی ہار کادھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے موتیوں کاتانتا بندھ جاتا ہے۔‘‘(رواہ الترمذی والطبرانی)

یہ اوراس جیسی کئی دوسری احادیث جن میں نبی صادق ومصدوق ﷺ نے انسانوں کی بداعمالیوں ،نافرمانیوں اور منکرات کا ذکر فرماکر اللہ کے عذابات کا ذکر کیا ہے ، یہ ہمارے لیے آئینہ ہیں،ہم سب بحیثیت مجموعی ان احادیث کے ذریعے اپنے کردارواعمال کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

میرے بھائیو!…یاد رکھو ،اللہ کا کوئی چہیتا نہیں،اللہ کاپسندیدہ بندہ صرف وہ ہے جومتقی اور نیکوکارہے،لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ جب عمومی عذاب آتاہے تو نیکوکار بھی عذاب کاشکار ہوتے ہیں۔چناں چہ ہمارا فرض ہے کہ ہم قدرتی آفات ،وَبائی اَمراض اور پریشان کن حالات سے متعلق قرآنی ہدایات اورنبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو بھی سامنے رکھیں،اور ان پرسختی سے عمل پیراہوں۔اس سلسلے میں عوام وخواص سے میری چند گزارشات ہیں،ان گزارشات کا سب سے پہلے میں خود مخاطب ہوں پھرمیرے تمام مسلمان بھائی مخاطب ہیں:

۱…تمام مسلمان انفرادی اور اجتماعی فرائض کی ادائیگی کا بھرپور اہتمام کریں،جوفرائض انفرادی نوعیت کے ہیں انہیں انفراداً اَدا کریں اور جو اجتماعی نوعیت کے ہیں انہیں اجتماعی طورپرادا کرنے کا التزام کریں۔بالخصوص نمازوں کا بھرپور اہتمام کریں،نبی کریم ﷺپریشان کن حالات میں نمازوں کا خاص اہتمام فرمایاکرتے تھے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :’’ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔یہ موقع ہے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے اور زاری وعاجزی کرنے کا،سو اللہ تعالیٰ کے غضب کو فرض اور نفل نمازوں کے اہتمام کے ذریعے ٹالنے کی کوشش کرو۔

۲…قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جوروحانی وجسمانی ہرقسم کی بیماریوں کے لیے شفا ہے،اس کلام شافی کی تلاوت کا اہتمام کریں،ہرمسلمان جتنا ہوسکتا ہے موجودہ بیماریوں سے شفا اور آئندہ بیماریوں سے حفاظت کی نیت سے تلاوت کلام اللہ کا اہتمام کرے۔دکانوں میں ،دفاتر میں،اور اپنے کام کاج کی مناسب جگہوں میں تلاوت کا اہتمام کریں ۔محلوں اور مسجدوں میں جہاں جہاں قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ قائم ہے اسے مزید اہتمام سے بجا لائیں۔

۳…بعض اوقات بڑی آزمائشیں گناہوں پر تنبیہ کے لیے ہوتی ہیں،ایسے موقع پر تمام مسلمان کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کرتے رہیں۔اپنے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کے استحضار کے ساتھ پکی توبہ کا التزام کریں۔کیا آپ لوگوں نے قرآن مجید میں سیدنا یونس علیہ السلام کی قوم کا قصہ نہیں پڑھا؟ جب ان پر عذاب یقینی ہوگیا،اور گہرے سیاہ بادل ان پر چھا گئے تو وہ اپنی آبادیوں سے نکل کھڑی ہوئی اور سب نے جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے عذاب کو ہٹا لیا۔

عوام وخواص اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات پرمکمل بھروسہ رکھیں اور بیماریوں کے واقعی اثرات کے باوجود اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حفاظت کے قدرتی نظام سے بالکل بھی مایوس نہ ہوں ،اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ،اس کی قدرت پر کوئی طاقت اور تاثیر غالب نہیں ہوسکتی۔رجوع الیٰ اللہ اور دُعا ہر خیر کے حصول اور ہرشر سے بچائوکامسنون ذریعہ ہے،دعائوں کا خاص اہتمام کریں،بلکہ مساجد اور مسلمانوں کے اجتماعات میں اس کے لیے دعائیں کریں ،اور دفع بلا ء کے لیے مناسب انداز میں دعائیہ اجتماعات بھی منعقد کریں۔ سیدنایونس علیہ السلام کی دعا: ’’لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن ‘‘کا کثرت کے ساتھ ورد اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹالنے کا سبب ہے، اس لیے آیت کریمہ کا اہتمام کے ساتھ ورد کریں۔ صبح وشام کی مسنون دعائوں کااہتمام کریں:۔

بِسْمِ اللہ ِالَّذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہ شَیْئیٌ فیِ الْاَرْضِ وَلاَفیِ السَّمَاء وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْم (تین مرتبہ)

اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التاَّامَّاتِ مِنْ شَرِّمَاخَلَق (تین مرتبہ)

سورۂ اخلاص،اور معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس)(تین تین مرتبہ)

نمازفجراورنماز مغرب کے بعد پڑھنے کا معمول بنائیں۔ روزانہ نمازفجر کے بعد سورہ یٰسین کی تلاوت۔اس کے علاوہ کلمہ تمجید …(ایک تسبیح)

اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فیِ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِہِمْ(ایک تسبیح)

لاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ العلی العظیم (ایک تسبیح)

درودشریف کی کثرت کریں۔اس کے ساتھ ساتھ صدقہ وخیرات ،غرباء اورمساکین کی خبرگیری کا اہتمام کریں۔

۴…مسلمان تجار اور کاروباری حضرات سود ،سٹہ ،ذخیرہ اندوزی اور ان جیسے دیگر حرام ذرائع تجارت سے توبہ کریں، اشیاء ضروریہ اورادویہ کو مہنگے داموں فروخت نہ کریں،ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو مزید دعوت دینا ہے۔اپنے غریب ومسکین بھائیوں کا خیال کریں،یادرکھیں اس مشکل گھڑی میں جبکہ ہرشخص ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کا محتاج ہے ،محض اپنے مفاد کو دیکھنا بدترین کام ہے۔

۵…حکام وقت سے میری گزارش ہے کہ وہ عوام کوہمت دلائیں،احتیاطی تدابیر ضرور بتائیں، مگر جبرواکراہ کے ذریعے افراتفری پھیلانے سے گریز کریں۔اس وقت پورا ملک جس صورت حال سے دوچار ہے،روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کے ذریعے رزق حاصل کرنے والے غریب طبقے کے افرادکے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔اسلامی ریاست کے حکام کا فرض ہے کہ وہ خاص طور پر اپنی رعایاکی پوری خبر گیری کریں ،اس کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

تازہ ترین