• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کے پہلے دن سے ہی سوچ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دسمبر 2019سے دنیا کو اس صورتحال میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ ٹیکنالوجی اور جدید علوم کی اکیسویں صدی میں اس کا کچھ نہ کچھ تو مقصد ہوگا۔

یقیناً وہ اس بظاہر تباہی و بربادی کے بنی نوع انسان کو کسی خاص مقام تک لے جانا چاہتا ہے۔ اسے عذاب کہنا، گناہوں کی سزا کہنا ایک سطحی بات ہے۔ اب دنیا بھر کے سائنسدان، مفکرین، معالجین بھی اس ابتلا کا سبب اور اس درد کا درماں ڈھونڈنے میں دن رات مصروف ہیں۔

انسانی زندگی بچائی جا رہی ہے۔ آج صبح نماز فجر کی تنہا ادائیگی کے بعد میرے وجدان نے مجھ سے یہ سرگوشی کی ہے کہ جس روز سائنسدانوں کی تحقیق مشیتِ ایزدی کے قریب پہنچ گئی، دنیا اس وبا کے حصار سے باہر نکل آئے گی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

حالات اور قدرت نے عمران خان کو ایک فیصلہ کن موقع دیا ہے۔ پوری قوم بھی نظریۂ ضرورت کے تحت ان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ تاریخ کا رُخ موڑنا اس کے ہاتھ میں ہے۔ 22کروڑ کی قسمت بدلنے کی چابی اس کے پاس ہے مگر اس کے پاس وہ مطالعہ، مشاہدہ نہیں ہے جس سے استعداد اور قوتِ محرکہ نصیب ہوتی ہے۔

نہ ایسے ملاحوں کی ٹیم ہے جو ایسے طوفانوں سے جہاز کو بچا کر لے جاتی ہے۔ وہ لمحۂ موجود سے آگے کیا لمحۂ موجود پر سوچنے کی اہلیت سے بھی قاصر ہے۔ وہ دلوں میں نہیں اتر رہا ہے۔ متبادل قیادت صرف اس کے بیانات اور اقدامات پر ردّعمل ظاہر کر رہی ہے۔ استعداد ان کے پاس بھی نہیں ہے۔

اسی قدرت نے سید مراد علی شاہ کو اپنے محدود دائرۂ اختیار میں فیصلہ کرنے کی توفیق دی ہے۔ وہ یکے بعد دیگرے مدبرانہ اقدامات کرکے اہلِ سندھ کے دل میں جگہ بنا رہے ہیں۔

اس میں ان کی ٹیم کا دخل بھی ہوگا اور سید عبداللہ شاہ کی تربیت کا بھی۔ لیکن میں سمجھ رہا ہوں کہ یہ ان کی انجینئرنگ کی تعلیم کا ثمر ہے اور خاص طور پر اسٹرکچرل انجینئرنگکا۔ ساختیاتی تعمیراتی انجینئرنگ۔ جس میں کسی بھی منصوبے کا مجموعی خاکہ۔ ڈیزائن کیا جاتا ہے۔

دو تین ماہ بعد جب ہم اس عالمگیر کرب سے باہر نکلیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کون سرخرو ہوا ہے اور کتنے تاریخ کی کچرا کنڈی میں پھینک دیے گئے۔

ایسی ابتلائوں میں اور خاص طور پر جب آپ گھروں میں بند ہوں۔ تو تخیل بہت پرواز کرتا ہے۔ تخلیقی صلاحیت عود کر آتی ہے۔ اپنے محسوسات کو شعری پیراہن پہنا کر دلی تسکین بھی ہوتی ہے۔

اور وقت گزارنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ پہلے ہفتے میں ہی چند سطری نظم مجھ سے سرزد ہوگئی تھی جو پسند بھی کی گئی۔ عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی؍ بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں؍ علاج اس کا بشر سے بشر کی دوری ہے؍ یہ امتحان ہے بنی نوع انسان کا؍ ہر ایک موت ہی دیتی ہے دعوتِ تحقیق؍ کہیں تو حضرت انساں سے ہو گئی ہے بھول۔

سبھی شعرائے کرام اس تجربے سے گزر رہے ہیں۔ نظمیں، غزلیں فیس بک سے سننے کو مل رہی ہیں۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں۔ دنیا بھر میں یہ تخلیقی بہائو جاری ہے۔ امریکہ یورپ میں ’کورونا وائرس پوئٹری‘ کے نام سے مقاماتِ آہ و فغاں کھول دیے گئے ہیں۔ طویل نظموں میں اپنی تہذیب ثقافت کے کھنڈرات میں انسانی بقا تلاش کی جا رہی ہے۔

مگر میں آج اپنے عظیم دوست چین کی شاعری کی بات کروں گا میں نے خود کہا ہے... اس نئی جنگ کا فاتح وہ ہے؍ چین کے رنگ میں ڈھلنا ہوگا۔ پہلے بات ہو جائے ووہان کے 50سالہ ٹرک ڈرائیور زیائو ہون پنگ کی۔ میلوںمیل کی مسافت سے وہ تھکا ہارا سنسان شاہراہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ راستے میں کہیں سستانا چاہتا ہے تو اس علاقے کے لوگ اسے بھگا دیتے ہیں۔

پھر وہ تنگ آکر سوشل میڈیا کا سہارا لیتا ہے۔ ایک وڈیو کے ذریعے دنیا کو بتاتا ہے۔ ’ایک واحد ٹرک دنیا کے سمندر میں تیر رہا ہے؍ میں اپنا گھر سنسان زمینوں پر بنا رہا ہوں؍ میرا جسم شل ہو چکا ہے؍ میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ مجھے کوئی گوشہ مل جائے جہاں میں رکوں، کچھ سو لوں، کچھ کھا لوں‘۔

اس کی یہ تُک بندی اور تصویر ہوا کے دوش پر دنیا تک پہنچتی ہے تو کئی گھنٹوں کی مزید مسافت کے بعد پولیس اس کی مدد کو پہنچتی ہے۔ اسے سونے کی جگہ بھی دیتی ہے۔ کچھ کھانے پینے کو بھی۔ زیائو ہون پنگ کے کام اس کی شاعری آئی ہے۔

اس لیے اب اس کا ارادہ ہے کہ وہ ٹرک ڈرائیوری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی باقاعدگی سے کرے گا۔ اس کو بہت سے تحائف بھی ملتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے گھر پہنچنے کی آرزو میں ہوں۔ ایک دن پرندے چہکیں گے۔ اور میں اپنے گھر میں اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ہوں گا۔

184سطروں پر طویل نظم بیجنگ کے معروف شاعر اینتھونی ٹائو کی میرے دل کو بہت بھائی ہے یہ کبھی نہ کبھی ادبیاتِ عالیہ میں شمار ہوگی۔ عنوان ہے ’’کورونا وائرس۔ چین میں‘‘۔ ابتدا ہوتی ہے۔ ہم اپنے ماسک میں سے مسکراتے ہیں۔ اپنی بھنوئوں سے ہیلو کہتے ہیں۔

دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ تاکہ دوسروں کو یاد رہے کہ ہم ابھی ہیں۔ سبزی فروش دکان بند کرنے چلا گیا ہے۔ باربر اپنے ریڈیو سمیت گھر لوٹ گیا۔ چابی ساز۔ صرف اپنا فون نمبر دے گیا۔ مطلع صاف ہے۔ ہوا تازہ۔ اپنی تیمارداری ہم خود کر رہے ہیں۔ نظم کا ایک حصّہ ’کورونا۔ اپنے محلے میں‘۔

دوسرا ’کورونا گلیوں میں‘۔ تیسرا ’کورونا خواب گاہوں میں‘۔ چوتھا ’کورونا۔ امپیریل گارڈن میں‘۔ (حکومتی دفاتر۔ سیکرٹریٹ مراد ہے) پانچواں ’کورونا۔ فضا میں‘۔ چھٹا ’کورونا دل میں‘۔ شاعر نے چین کے لانگ مارچ، ثقافتی انقلاب، تن ان من چوک کے حوالے بھی دیے ہیں۔

اور اس ڈاکٹر لی وین سیانگ کا بھی ذکر ہے جس نے اس وبا سے سب سے پہلے خبردار کیا۔ مگر اس کی بات سننے کے بجائے اسے حراست میں لے لیا گیا۔ بعد میں وہ بھی اس وبا کا شکار ہو گیا۔ نظم پوری تو آپ کو نہیں سنا سکتا۔ زماں ہے نہ مکان۔ کہیں کہیں سے جستہ جستہ۔ آپ کو اس میں شعریت محسوس ہوگی۔ تو ’’گوگل‘‘ پر دستک دیں۔

یہ نظم اپنے بانکپن، انگڑائیوں اداسیوں، اشاروں کنایوں کے ساتھ آپ کے سامنے ہوگی۔ جرثوموں کے نام۔ جن پر ہم نے ماسک لگا کے۔ صندوقوں میں بند کیا۔ پھر بھی وہ نکل آئے۔

دوڑتے اچھلتے گلیوں میں چلے گئے؍ ہمیں اپنی وحشت پر قابو پانا مشکل ہوگیا؍ انسانوں کو بچانے کیلئے انسانیت چھوڑنا پڑی؍ ہمارے پھیپھڑے برف کی تہوں کی طرح چٹختے ہیں؍ کورونا پر قابو پانے والے حکام کے دفاتر بھی کورونا کے قابو میں ہیں؍ محصور شہر جو ایک ہزار جھیلوں کے صوبے میں ہے؍ اچھا ڈاکٹر کہتا رہا؍ لیکن ہم نے یقین نہیں کیا؍ ڈاکٹر یقین کرنے کے باوجود نشانہ بن گیا؍ کیا تم عوام کو خواص پر؍ ملک کو ذات پر؍ پارٹی کو خاندان پر ترجیح دو گے؍ ہماری نظریں بادلوں پر تھیں چھتوں کی ٹائلوں پر؍ ڈریگن کے پروں پر؍ سچائی اس طرح دھماکے کے ساتھ سامنے آئی۔

جیسے وہ چھینک جو ہماری کوشش کے باوجود نہیں رکتی؍ ہم گلیوں میں غمگین بھوتوں کی طرح گھومتے رہے؍ ہم اپنے سینے پر ہاتھ ملتے رہے؍ حیران ہوتے رہے کہ کیا گم ہوگیا ہے۔

تازہ ترین