
گا؟ بیماروں کا کیا ہو گا؟ کوئی ہمارے لئے سوچنے والا بھی نہ ہو، آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہو، بچے خوفزدہ ہوں، مستقبل اندھیرے میں ہو، ظلم و ستم کی انتہا ہو، اور روشنی کی کوئی کرن بھی نہ دکھائی دیتی ہو، کوئی سدھ لینے والا نہ ہو اور ساری دنیا خاموش تماشا دیکھ رہی ہو۔ "نفیسہ روتے ہوئے بولتی رہی’’ہم نے سب سہہ لیا، اور سہہ بھی رہے ہیں لیکن اُس وقت دل روتا ہے، تڑپتا ہے جب یہ سنائی پڑتا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا ہوا، یہی ہونا چاہئے تھا! میں نے ان لوگوں کے لئے یا کسی کے لئے بھی کبھی بدعا نہیں کی، کسی کا برا نہیں چاہا بس ایک ’’دعا‘‘کی ہے تاکہ سبھی لوگوں کو اور ساری دنیا کو ہمارا کچھ تو احساس ہو جائے!اوراروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہو گی!‘‘جب میں نے پوچھا ’’کیا دعا کی بہن آپ نے؟‘‘تو نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے جو کہا تھا وہ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتا رہتا تھا۔ آج آنکھوں سے دِکھ بھی رہا ہے، شبد شبد وہی لکھ رہا ہوں، اُس کا درد محسوس کرنے کی کوشش کیجئے گا! نفیسہ نے کہا تھا ’’اے اللہ جو ہم پر گزر رہی ہے کسی پر نہ گزرے بس مولا تو کچھ ایسا کردینا، اتنا کردینا کہ پوری دنیا کچھ دنوں کے لئے اپنے گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہوجائے، سب کچھ بند ہوجائے، رک جائے! شاید دنیا کو یہ احساس ہو سکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں۔‘‘ آج ہم سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں۔’’اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہو گی۔‘‘میرے کانوں میں نفیسہ کے وہ شبد ( الفاظ ) آج بھی گونج رہے ہیں۔