کراچی (ٹی وی رپورٹ) ستارہ امتیاز ، ہلال امتیاز حاصل کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ایم ایچ مبشر کہا ہے کہ کورونا وائرس کے سبب لوگوں کے گھروں میں مقیم ہونے کی وجہ سے ایک نئی بیماری نے جنم لیا ہے جسے کورونا فوبیاکا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، اس وائرس نے لوگوں کے ذہنوں میں ایک خوف طاری کردیا ہے۔ بے چینی ، بے قراری، بیماری کا خوف ایک فوبیا بن گیا ہے جس سے لوگوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ کورونا فوبیا کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں قوت مدافعت کم ہورہی ہے ۔ سربراہ شعبہ نفسیات پمز ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا تھا کہ زندگی احتیاطی تدابیر کے مطابق ری ایڈ جسٹ کرنے کی ضرورت ہے، عوام بذریعہ فون و دیگر طریقوں سے ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ گفتگو کریں اپنے دکھ بانٹیں،وہ جیو نیوز کے پروگرام جیو پارلیمنٹ میں میزبان ارشد وحید چوہدری سے گفتگو کررہے تھے۔سربراہ شعبہ نفسیات پمز ڈاکٹر رضوان تاج کا مزید کہنا تھا کہ کہ کوئی بھی شخص ہو اس کے ذہنی قوت برداشت کی ایک لمٹ ہوتی ہے اس وقت عالم یہی ہے کہ جو مریض ہمارے پاس آرہا ہے اس کی یا تو اس فوبیا کے باعث نیند اڑ گئی ہے یا پھر وہ شدید قسم کے ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا ہے اور لوگوں میں غصہ عام ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ تعلقات متاثر ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ کیونکہ اس وقت ہر شخص اپنے ، اپنی فیملی کے مستقبل کی طرف سے فکر مند ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر شخص تنازع کا شکار ہوگیا ہے اور جھگڑے بڑھ رہے ہیں ۔ڈاکٹر مبشر کا مزید کہنا تھا کہ سوشل ڈسٹنسنگ مغرب کی ٹرم ہے پاکستان میں سوشل ڈسٹنسنگ ہوگی تو مسائل جنم لیں گے ہمیں مغربی اسٹائل اورماڈل کی اندھی تقلید نہیں کرنا چاہئے ۔اگر حکومت کہہ رہی ہے کہ سوشل ڈسٹنسنگ رکھیں تو اتنی رکھیں جتنی ضرورت ہے، اس حد تک نہیںکہ لوگوں سے رابطے ہی ختم کردیں کیونکہ جب رابطے ختم ہوں گے تو ڈپریشن بڑھے گا، بہتر یہ ہے کہ لوگوں سے اپنی باتوں اور پریشانی کو شیئر کریں تاکہ اندر کا غبار نکل سکے ۔ ڈاکٹر مبشر کا کہنا تھا کہ کورونا سے پہلے اور اب جو مریض میرے پاس آرہے ہیں ان سے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اب ہمارے اندر صبر کی صلاحیت تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے، ہمیں اپنے اندر ذہنی قوت مدافعت پیدا کرنا ہوگی، خود کو خوف سے دور کرنا ہوگا جب گھر میں خوف پیدا ہوجاتا ہے تو اس کا اثر سب پر پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر رضوان کا مزید کہنا تھا کہ انسان کو اپنی زندگی کو ان حالات میں جو احتیاطی تدابیر ہیں ان کے مطابق ری ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جو پابندیاں ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ اپنی زندگی بہترین طریقے سے گزارنے کی کوشش کریں۔ یہی وقت ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں، دوستوں، اپنے بزرگوں اوربچوں سے تعلقاتمضبوط کریں اس کے لئے ضروری نہیں کہ ان کے قریب جاکر بات کریں ہم ان سے بذریعہ موبائل، اسکائپ اور دیگر طریقوں سے بھی بات کرسکتے ہیں۔ انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ گفتگو کریں اپنے دکھ بانٹیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ خود کو بالکل سے بے سہارا نہ سمجھیں اللہ ہر وقت ہمارے ساتھ موجود ہے ہم الحمدللہ مسلمان ہیں اور ہمیں کسی بھی طو رپر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ صبح اٹھتے ہی لوگ اپنے تمام دن کی پلاننگ کرلیں کہ کتنا ٹائم کس چیز کو دینا ہے ، بچوں کے لئے بھی ایک ٹائم ٹیبل مرتب کریں کہ انہیں سارے دن میں کس وقت کیا کام کرنا ہے تاکہ وہ بھی یکسانیت ، تنہائی اور بوریت کا شکار نہ ہوں ۔