• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے اطراف جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیرمعمولی طور پر مشکوک ہے۔ یہ میرا نہیں، بلکہ فقیر کا کہنا ہے۔ وبائیں پہلے بھی آتی رہی ہیں مگر آج تک کسی وبا کی اس قدر ہیجانی کیفیت میں آئو بھگت نہیں ہوئی۔ فقیر کا کہنا ہے کہ آپ آنکھ، ناک، کان کھلے رکھیں اور منہ بند رکھیں۔ کورونا وائرس کے درپردہ بغیر کہے ہوئے ہم سے کہا جا رہا ہے کہ کچھ کرو نا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مت بیٹھے رہو، کچھ کرو، کچھ کرو نا! میرے بھائیو اور میری بہنو اور کچھ نہیں، اپنے دماغ کی کھڑکیاں اور روشندان کھلے رکھیں۔ سوچیں، سمجھیں یہ کوئی موہنجودڑو کے دور کی باتیں نہیں ہیں، حال ہی کی باتیں ہیں۔ حالات چاہے کتنے بھی گمبھیر کیوں نہ ہوں ہمارے تمام اخباروں کی شہ سرخیاں کبھی ایک جیسی نہیں ہوتی تھیں۔ خاص طور پر اعداد و شمار کے حوالے سے۔ ٹرین کا ایکسیڈنٹ ہو جائے، مختلف اخباروں میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کے مختلف اعداد و شمار پڑھنے کو ملتے تھے۔ جتنے منہ اتنی باتیں کے بجائے اب جتنے اخبار اتنے ہی مختلف اعداد و شمار، مگر موجودہ ہیجانی اور غیرمعمولی حالات میں اب ایسا نہیں ہوتا۔ تمام اخبار اور ٹیلی وژن چینلز ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں۔ کسی کے اعداد و شمار میں رتی برابر فرق نہیں ہوتا۔ کورونا وائرس نے آج تک بہت بڑے کمالات دکھائے ہیں۔ یہ میں نہیں کہتا۔ یہ فقیر کا کہنا ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے اخبارات کے اعداد و شمار میں رتی برابر فرق نہیں ہوتا۔ پچاسیوں ٹیلی وژن چینلز، ان چینلز کے نیوز ریڈر، ان چینلز کے اینکر پرسنز اور ان کے پروگراموں کے شرکا قوم کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی کوششوں میں سبقت لے جانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اس طرح کی جنونی کوششوں میں اکثر گھپلے ہو جاتے ہیں، مثلاً انتخابات کے غیرحتمی نتائج سب سے پہلے بتانے کی مجذوبانہ دوڑ میں ٹیلی وژن چینلز والے گھپلوں کے اگلے پچھلے ریکارڈ اور گراموفون توڑ دیتے ہیں مگر یہ کورونا وائرس کا کمال ہے کہ چھوت کی بیماری کے بارے میں خبروں اور خبروں کے علاوہ بیشمار پروگراموں میں رتی برابر گھپلا نہیں کرتے۔ اعداد و شمار پڑھتے اور سنتے سنتے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معلومات کا مآخذ، منبع ایک ہے اور پیش کرنے والے نیک۔ اس لئے اعداد و شمار یکساں ہوتے ہیں۔

فقیر کی سمجھ میں یہ بات قطعی نہیں آتی کہ معلومات کی رسد اور فراوانی میں اس قدر بےمثال ہم آہنگی کیوں ہے۔ مریضوں اور مرنے والوں کی تعداد میں ہم آہنگی صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بیمار اور مرنے والوں کے مصدقہ اعداد ہمیں لمحہ بہ لمحہ سنائے جا رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے بچنے کی تدابیر نے پوری دنیا کو سچ مچ ایک عالمی گائوں میں بدل دیا ہے۔ احتیاطی تدابیر میں سرفہرست ہے لاک ڈائون، گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جانا۔ اس وقت دنیا کے دو تہائی لوگ گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس بات نے فقیر کو حیران کر دیا ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، یہودی، بدھ مت کے پیروکار اور دیگر عقیدوں کو ماننے والے ایک ہی پیج پر آگئے ہیں۔ مسجدیں، مندر، گوردوارے، چرچ سب بند، اگر کسی کو بندگی کرنی ہے تو وہ گھر پر بندگی کر رہا ہے۔ کورونا وائرس کا اسکرپٹ تیار کرنے والے کیا دکھانا چاہتے ہیں؟ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ دنیا سچ مچ عالمی دیہات یا گائوں ہے! ڈرائونے حالات پیدا کرنے اور ان حالات میں ایک طرح کی حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اپنانے سے دنیا ایک نہیں ہو سکتی۔ جغرافیائی حدود میں تقسیم لوگ اپنے ڈیل ڈول، شکل و صورت کے علاوہ اپنے مزاج، اپنے رویوں، اپنی عادات اور اطوار، تہذیب اور تمدن میں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کا قانون ہے۔ اپنے اپنے جغرافیائی حدود میں رہنے والوں کی اپنی اپنی شناخت، اپنی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ فقیر تذبذب میں ہے۔ سائنسی ایجادات کے دوران لیبارٹریز میں چوہوں اور خرگوشوں پر تجربات کئے جاتے ہیں۔ فقیر نے سنا ہے کہ بےانتہا ترقی یافتہ ممالک کی لیبارٹریز میں لاوارث لوگوں پر بھی آزمائشی تجربے کئے جاتے ہیں مگر یہ دنیا کسی بےانتہا ترقی یافتہ ملک کی لیبارٹری نہیں ہے اور دنیا کے لوگ چوہے اور خرگوش نہیں ہیں۔مانا کہ کورونا وائرس خطرناک ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا۔ یہ فقیر کا کہنا ہے۔ کورونا ماضی قریب میں دو مرتبہ دنیا کو جلوہ دکھا چکا ہے۔ 2002میں سارس کورونا چین کے شہر گانگ وانگ میں پھوٹ پڑا تھا اور دنیا کے چوبیس ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دس سال بعد 2012میں سارس کورونا وائرس پھر سے چین میں ظاہر ہوا تھا اور اس نے سعودی عرب اور امریکہ کو اپنے زیر اثر کر لیا تھا۔ تب دنیا کے ممالک پر حکمرانی کرنے والے حاکم اور میڈیا کہاں تھا؟ تب میڈیا نے ایسی ہیجانی کیفیت کیوں نہیں پیدا کی تھی؟ تب بھی چیچک، ایڈز، تپ دق، فلو اور ملیریا جیسے وائرس سے مرنے والوں کی طرح کورونا سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسپینش فلو میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ مر گئے تھے۔ تب دنیا کی آبادی دو سو کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ آج دنیا کی آبادی ساڑھے سات سو کروڑ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 60ہزار ہے۔ اس دوران لاکھوں لوگ ایڈز، کینسر اور بھوک سے مر چکے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 22کروڑ یعنی بائیس سو لاکھ۔ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 50ہے۔ فقیر کو لگتا ہے کہ ہم کورونا سے نہیں مریں گے۔ ہمیں حکومت اور میڈیا والے کورونا سے ڈرا ڈرا کر مار ڈالیں گے۔

تازہ ترین